کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 66
فعّال نہ ہوگا، اس وقت تک مسلم اُمّہ اپنے مسائل کے گرداب سے باہر نہیں نکل سکتی، بالخصوص ایسے دور میں جب چھوٹے سے چھوٹے مقصد کے لئے باضابطہ تنظیمی وادارہ جاتی تقاضے بہت بڑھ چکے ہیں اور اُمتِ مسلمہ کو جن اقوام سے واسطہ پیش آرہا ہے، وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام پر کبھی 52 ریاستوں پرمشتمل وفاق میں اپنی سیاسی وعسکری قوت کو متحد ومتفق کئے ہوئے ہیں تو کبھی یورپی اقوام : یورپی یونین، یورو کرنسی یا جی 8 ممالک کے نام پر مشترکہ اور وسیع تر اتحاد کی قوت سے اس کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ملت ِاسلامیہ کے تنظیمی وانتظامی مرکز سے قطع نظر، اسلام کی نام لیوا دنیا کی ایک چوتھائی آبادی، عوامی سطح پر اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ایک دوسرے سے بڑی گہرائی کے ساتھ مربوط ومنسلک ہے۔مختلف ممالک میں بٹے ہوئے مسلمان اسلام کےباہمی گہرے رشتے کی وجہ سے دوسرے مسلمان ممالک کے عوام کے درد کو اپنے سینے پرآنے والےزخم کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ مسلم علاقوں میں بظاہر جزوی فرقہ وارانہ اختلافات سے قطع نظر جنہیں وطنی ریاستیں مسلم کاز کو کمزور کرنے اور اپنے مفادات کے لئے مزید ہوا دیتی رہتی ہیں، دنیا بھر میں پائی جانے والی مسلم اقلیتیں ایک دوسرے سے نظریے کے گہرے رشتے میں پروئی ہوئی ہیں۔ مغربی ممالک میں اسلامی ثقافت کے خلاف پائی جانے والی شدید حالیہ لہر کی وجہ بھی مختلف وطنوں سے آ نے والے مسلمانوں کا آپس میں اسلام کے رشتے میں پوری شدت سے جڑ جانا ہے، جس کا کوئی حل مغربی تہذیب کے پاس نہیں ہے۔ غرض اسلامی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی دیگر تمام اقوام سے کہیں زیادہ ملت ِاسلامیہ کے ایک متحد ومجتمع جمعیت بننے کے امکان قوی ہیں، جنہیں عالمی استعمارمسلسل حیلے وتدابیر سے ٹالنے کی پیہم کوشش کرتا چلاآرہا ہے۔جس دن ظاہری رکاوٹیں ختم ہوئیں اور ملت کو کوئی حقیقی مرکز مل گیا، تو ملتِ اسلامیہ ماضی کی طرح پھر دنیا کی عظیم الشان خلافت ِاسلامیہ ہوگی۔ ملت ِاسلامیہ کے عرب ممالک میں پایا جانے والا حالیہ شدید اضطراب اس امر کا غماز ہے کہ اگر اُن کے سیاسی المیہ کا تدارک ہوجائے اور اُنہیں اسلام نافذ کرنے والی حکومتیں مل جائیں تو اُن کو اللہ کی عنایت سے حاصل شدہ عظیم الشان نظریاتی قوت، اور مادی وشخصی وسائل کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت آج بھی دم مارنے کی سکت نہیں رکھتی اور اس طرح ملت کا زوال چند سالوں میں عروج میں بدل سکتا ہے۔ اوپر پیش کردہ مختصرمنظرنامے اور گمبھیر حالات میں اُمّتِ مسلمہ میں جواباً کئی طرح کے رویے سامنے آتے ہیں اور یہی رویے ہمارا موضوع ہیں: