کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 64
عالم اسلام عبد اللہ حسن
ملت ِاسلامیہ ؛ امریکی استعمار کے نرغے میں!
جہادی ردّ عمل اور عوامی رویے
امریکہ دنیا کی بڑی عسکری طاقت ہے۔ گذشتہ صدی کی دو عظیم جنگوں سے بچے رہنے اور بعد کی کئی دہائیوں تک روس سے سرد جنگ میں نبرد آزما رہنے کے بعد ، جب مجاہدینِ اسلام کی کوششوں سے امریکہ کو دنیا میں برتر فوجی قوت بننے کا مقام حاصل ہوا تو اس کی عسکری صنعت اور رجحان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی صلاحیت ِکار، عالمی اداروں میں اثر و رسوخ اور سفارتکاری کی صلاحیتوں کو ایک نیا شکار تراشنا لازمی تھا۔ یہ شکار اس لئے بھی ضروری تھا کہ ایک عظیم فوج کو اگر کسی اہم بیرونی مشن میں مصروف نہ کیا جاتا اور’ریاستہائے متحدہ امریکہ‘ کے نام سے ایک براعظم پر پھیلی 52 ریاستوں کو ایک واضح دشمن (چاہےوہ خودساختہ کیوں نہ ہو) کی طرف یکسو نہ کیا جاتا تو امریکہ کی داخلی سلامتی اور باہمی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا۔
امریکہ کا مجوزہ شکار اگر ترقی یافتہ ممالک بنتےتو ان سے عسکری و سفارتی برتری اور مادی فوائد کا حصول کافی مشکل ہوتا۔اس مقصد کےلئے امریکہ نے اپنی توجہ ملت ِاسلامیہ کی طرف کی ، جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بہترین خطوں اور لامتناہی خزانوں کا مالک بنایا ہے۔ عالمی سیاست میں 1990ء کے قریب یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد عالم اسلام کو بارِدیگر شکار بنانے کی سازشوں کا آغاز کیا گیا۔یاد رہے کہ 1990ء سے پہلے کی کئی دہائیوں میں ملت ِاسلامیہ براہِ راست کفر کے مدمقابل یا حریف نہیں رہی اور یہ اُن کے لئے قدرے عافیت کے سال ہیں، لیکن اس کے بعد کے سالوں میں آہستہ آہستہ عالم اسلام کے گرد عالمی سازشوں کا گھیرا تنگ کیا جاتا رہا۔ خلیج کی دو جنگوں کے بعد، جن میں بظاہر تو دو مسلم ریاستوں کو آپس میں برسرپیکار دکھایا گیا ، لیکن درپردہ امریکہ ایک ریاست کی تائید سے دوسری مسلم ریاست پر بمباری کرتا رہا، حتیٰ کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تو امریکہ نےنائن الیون کے نام پر براہِ راست اس خطہ میں قدم جمالئے ۔پھر عراق کی جنگ ہو یا مصر و لیبیا کی خانہ جنگی، ہرجگہ امریکہ جنگی جنون کو بڑھانے، دوسروں پر قبضہ جمانے، ان کے وسائل ہتھیانے اور ان پر ہلاکت مسلط کرنےکے نت نئے بہانے تلاش کرتا رہا ہے۔ان سالوں میں سوڈان اور صومالیہ میں بھی امریکی افواج جارحیت کرتی نظر آتی ہیں ۔پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے