کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 62
ضروری قرار دیا ہے اور امام کی نافرمانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے بعد کا درجہ دیا ہے۔
ایفاے عہد
اسلامی قانون نے جنگ اور صلح دونو ں حالتوں میں وفائے عہد کی سخت تاکید کی ہے۔
حقیقتاً اخلاقیات کے قواعدِاصلیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو سخت سے سخت ضرورت کی حالت میں بھی اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ بدعہدی سے خواہ کتنا ہی بڑا فائدہ پہنچتا ہو اور وفائے عہد سے کتناہی شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اسلام بہر صورت میں اپنے پیرووں کوتاکید کرتاہے کہ اس فائدے کو چھوڑ دیں اور اس نقصان کو برداشت کر لیں۔ کیونکہ نہ بد عہدی کا بڑے سے بڑا فائدہ اس نقصان کی تلافی کر سکتا ہے جو اس سے انسان کے اخلاق اور روحانیت کوپہنچتا ہے اور نہ ایفائے عہدکاکو ئی بڑے سے بڑ انقصان اس اخلاقی اور روحانی فائدے کو کم کر سکتا ہے جو اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ قاعدہ کلیہ جس طرح انفرادی اور شخصی زندگی پر حاوی ہے، اسی طرح اجتماعی اور قومی زندگی پر بھی حاوی ہے۔ آج کل دنیا میں یہ دستور بن گیا ہے کہ جن کاموں کو ایک شخص اپنی ذاتی حیثیت میں سخت شرمناک سمجھتا ہے، انہیں ایک قوم اپنی اجتماعی زندگی میں بے تکلف کر گزرتی ہے اور اسے کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ سلطنتوں کے مدبرین اپنی ذاتی حیثیت میں کیسے اخلاقِ فاضلہ و تہذیب ِکاملہ کے مالک ہوں مگر اپنی سلطنت کے فائدے اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے جھوٹ بولنا ، بے ایمانی کرنا ، عہد توڑ دینا، وعدہ خلافیاں کرنا بالکل جائز سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی مدعی تہذیب سلطنتیں ایسی بے باکی کے ساتھ یہ حرکات کرتی ہیں کہ گویا کہ یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔لیکن اسلام اس معاملہ میں فرد اور جماعت، رعیت اور حکومت، شخص اور قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا اور بد عہدی کو ہر حال میں ہر غرض کے لیے ناجائز قرار دیتاہے۔ خواہ وہ شخصی فائدے کے لیے ہو یاقومی فائدے کے لیے:
﴿وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا1 اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ﴾[1]
[1] النحل:91