کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 61
٭ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابو جہل کابیٹا عکرمہ جو خود بھی بڑا دشمن اسلام تھا، مسلمان ہوا اور جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کی صف میں شامل کیا گیا۔ ٭ ان کے علاوہ عبد اللہ بن ابی سرح ،سارہ اور کعب بن زبیر جو سب کے سب فاتح کے جانی دشمن تھے، معاف کیے گئے۔ جنگ کے مہذب قوانین اطاعتِ امام جنگ کو ایک ضابطہ کے تحت لانے کے سلسلہ میں اسلام کا پہلا کام یہ تھا کہ اس نے فوجی نظام میں مرکزیت پیدا کی اور فوج میں سمع وطاعت کا زبردست قانون جاری کیا۔ اسلام کے قواعد ِحرب میں اوّلین اوراہم ترین قاعدہ یہ ہے کہ کوئی خفیف سے خفیف جنگی کارروائی بھی امام کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ دشمن کوقتل کرنا، اس کے مال پر قبضہ کرنا، اس کوقید کرنا، اس کے جنگی آلات کو برباد کردینا فی نفسہٖ جائز ہونے کے باوجود ایسی حالت میں سخت ناجائز بلکہ گناہ ہو جاتا ہے جب کہ امام کے حکم اور اجازت کے بغیر ایسا کیا جائے۔ جنگِ بدر سے پہلے جب حضرت عبداللہ بن جحش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر قریش کی ایک جماعت سے جنگ کی اور کچھ مالِ غنیمت بھی لوٹ لائے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کااظہار کیا اور ان کے مالِ غنیمت کو ناجائز قرار دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے ان کو یہ کہہ کر ملامت کی تھی کہ صنعتم ما لم تومروا به ’’تم نے وہ کام کیا ہے جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔‘‘ حضرت خالد رضی اللہ عنہ بنوخزیمہ کی طرف دعوتِ اسلام کے لیے بھیجے گئے اور وہاں اُنہوں نے امام کی اجازت کے بغیر ایک غلط فہمی کی بنیاد پر قتل کا بازار گرم کر دیا۔ اس کی اطلاع جب رسول اللہ کوہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدتِ غضب سے بے تاب ہوکر کھڑے ہوگئے اور فوراً حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر بھیجا : «اجعل أمر الجاهلیة تحت قدمیك» تم اس جاہلیت کے کام کو جا کر مٹادو۔ اسلام نے اطاعتِ امام کو خود خدا اور رسول اللہ کی اطاعت کے بعد