کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 60
بھی ہاتھ نہ اُٹھانا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی منادی کی جاتی ہے کہ جو کوئی اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا، اسے امان ہے اور جوکوئی ہتھیار ڈال دے گا، اسے بھی امان ہے جوکوئی ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا اسے بھی امان ہے۔ پھرتکمیل تسخیر کے بعد فاتح سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دشمن ایک ایک کر کے لائے جاتے ہیں جنہوں نے ان کو تیرہ برس تک انتہائی اذیتیں پہنچانے کے بعد آخر جلاوطنی پر مجبو رکیاتھا۔ جو گھر سے نکالنے کے بعد اس کو اور اس کے دین کو دنیا سے مٹادینے کے لیے بدرواُحد اور احزاب میں بڑی بڑی تیاریاں کر کے گئے تھے۔ یہ دشمن گردنیں جھکائے ہوئے آکھڑے ہوتے ہیں۔ فاتح صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے ہیں: اب تم کیا امید کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ مفتوح شرم ساری کے ساتھ جواب دیتے ہیں: أخ کریم وابن أخ کریم’’ تو فیاض بھائی ہے اور فیاض بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘ اس پر فاتح کہتے ہیں: ((لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا أنتم الطلقاء)) [1] ’’جاؤ تم آزاد ہو آج تم سے باز پرس نہیں۔‘‘ ٭ یہ صر ف جان ہی کی بخشش نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ فاتح اور اُس کی فوج نے اُن جائیدادوں کو بھی اُنہیں کے حق میں معاف کردیا جو آٹھ برس پہلے ان کی مِلک میں تھیں۔ ٭ ہبار بن اسود جو فاتح صلی اللہ علیہ وسلم کی جوان بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کاقاتل تھا، عاجزی کے ساتھ مسلمان ہوا اور معاف کیاگیا۔ ٭ وحشی بن حرب جس نے فاتح کے نہایت محبوب چچا حمزہ کو قتل کیا تھا، مسلمان ہوااور بخشا گیا۔ ٭ ہند بنت عتبہ جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ [2]چباگئی تھی، اپنی انتہائی شقاوت کے باوجود فاتح کے غضب سے محفوظ رہی اور آخرعفوو درگزر کا دامن اس کے لیے بھی وسیع ہو ا۔
[1] بیہقی:9/118 [2] سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واقعہ مستند طورپر ثابت شدہ نہیں ، مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ماہنامہ ’محدث‘ اکتوبر2008ء، ’ہندہ بنت عتبہ کے متعلق مبالغہ آمیز قصہ ‘از مولانا عبد الجبار سلفی (ادارہ)