کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 6
اسلام ہونے کی وجوہ اور اس کی مخالفت کی حد کا تعین بھی کرے گی۔ شق 3 کے تحت اگر کوئی قانون خلافِ اسلام قرار پاتا ہے تو گورنر اس قانون میں ترمیم کرنے کے اقدامات کرے گا، بصورتِ دیگر عدالت کی متعین کردہ تاریخ سے وہ قانون کالعدم قرار پائے گا۔
2. واضح رہے کہ ماضی میں قانونِ امتناع توہین رسالت (دفعہ 295سی) میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کے منظور شدہ قانون مجریہ 1986ء میں مذکور’عمر قید کی سزا کے خلافِ اسلام‘ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور حکومت کو 30/اپریل 1991ء تک کا وقت دیا تھا کہ اس دوران وہ مناسب قانون سازی کرلے، بصورتِ دیگرشرعی عدالت کا فیصلہ ازخود نافذ ہوکر توہین رسالت کی سزا میں شامل سزائے عمر قید حذف ہوجائے گی۔
اسی طرح ماضی میں قصاص ودیت کیس میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے چیف جسٹس محمد افضل ظُلّہ کی سربراہی میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ سزائے قتل کے مروّجہ 56قوانین خلافِ اسلام ہیں اور حکومت کو چاہئے کہ اگست 1990ء سے پہلے پہلے متبادل قانون سازی کرے، بصورتِ دیگر قصاص ودیت کے شرعی قوانین براہِ راست نافذ ہوجائیں گے۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ قانونِ شفعہ کےبارے میں بھی دیا گیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں کے بعد متعینہ تواریخ تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہ کی، جس کے نتیجے میں پاکستان میں امتناعِ توہین رسالت کا قانون ، وفاقی شرعی عدالت کی ترمیم (عمر قید کے حذف ) کے بعد اور قصاص ودیت کے قوانین براہِ راست اسلامی شریعت سے ہی پاکستان میں نافذ العمل ہوگئے۔
3. آئین پاکستان کی دفعات اور ماضی کے بعض مذکورہ بالا قانونی اقدامات کی لاہور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ حدود کے ذیل میں آنے والے جرائم کے متعلق ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کی نگرانی/اپیل کا اختیار آئین کی شق 203