کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 59
10. جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔
اصلاح کے نتائج
ان احکام کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ افعال سے پاک کردیا جواس عہد میں جنگ کا لازمی جزو بنے ہوئے تھے ۔ اسیرانِ جنگ اور سفرا کا قتل ، مُردوں کی بے حرمتی ، معاہدین کا قتل ، مجروحینِ جنگ کا قتل ، غیر اہل قتال کا قتل ،اعضا کی قطع و برید، آگ کا عذاب ، لوٹ مار، قطع طریق ، فصلوں اور بستیوں کی تخریب ، بد عہدی وپیمان شکنی، فوجو ں کی پراگندگی وبد نظمی ، لڑائی کا شور وہنگامہ، سب کچھ آئین جنگ کے خلاف قرار دیا گیا اور جنگ صرف ایک ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم ممکن نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کرے۔
اس اصلاحی تعلیم نے آٹھ سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے ،اس کابہترین نمونہ فتح مکہ ہے۔ ایک طاقت پر دوسری طاقت کی فتح اور خصوصاًدشمن کے بڑے شہر کی تسخیر کے موقع پر وحشی عرب ہی نہیں بلکہ متمدن روم و ایران میں بھی جو کچھ ہوتا تھا، اسے پیش نظر رکھیے اس کے بعد غور کیجیے کہ وہی عرب جو چند برس پہلے تک جاہلیت کے طریقوں کے عادی تھے اسی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جس سے آٹھ ہی برس پہلے ان کو بری طرح تکلیفیں دے دے کر نکالا گیا تھا اور انہی دشمنوں پر فتح حاصل کرتے ہیں جنہوں فاتحوں کو گھر سے بے گھر کرنے پر قناعت نہیں کی تھی بلکہ جس جگہ اُنہوں نے پناہ لی تھی وہاں سے بھی ان کو نکال دینے کے لیے کئی مرتبہ چڑھ کر آئے تھے۔ ایسے شہر اورایسے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر کوئی قتل عام نہیں کیا جاتا، کسی قسم کی لوٹ مار نہیں ہوتی، کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو سے تعرض نہیں کیا جاتا، پرانے اور کٹر دشمنوں میں سے کسی پر انتقام کا ہاتھ نہیں اٹھتا،تسخیر شہر کی پوری کارروائی میں صرف چوبیس آدمی مارے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کہ دست درازی میں پیش قدمی خود ان کی طرف سے ہوئی۔
سالارِ فوج صلی اللہ علیہ وسلم داخلہ سے پہلے اعلان کر دیتا ہے کہ جب تک تم پرکوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تم