کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 57
نظمی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں نے راستہ کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرائی: ((من ضیق منزلا أوقطع طریقًا فلاجهاد له)) [1] ’’جو کوئی راستہ کوتنگ کرے گا یا راہ گیروں کولوٹے گا اس کا جہاد نہیں ہوگا۔‘‘ ایک دوسرے موقع پر فرمایا: ((إن تفرقکم في هذه الشعاب والأودیة إنما ذٰلکم من الشیطان)) [2] ’’تمہارا اس طرح وادی میں منتشر ہوجانا ایک شیطانی فعل ہے۔‘‘ ابوثعلبہ خشنی کا بیان ہے کہ اس کے بعد یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ جب اسلامی فوج کسی جگہ اُترتی تو اس کا گنجان پڑا ؤدیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک چادر تان لی جائے تو سب کے سب نیچے آجائیں۔ شورو ہنگامہ کی ممانعت عرب کی جنگ میں اس قدر شورو ہنگامہ برپاہوتا تھا کہ اس کا نام ہی ’غوغا‘ پڑھ گیاتھا۔ اسلام لانے کے بعد بھی عربوں نے یہی طریقہ برتنا چاہا مگرداعی اسلام نے اس کی اجازت نہ دی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں : ’’کنا مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وکنا إذا أشرفنا علىٰ واد هللنا وکبرنا، ارتفعت أصواتنا، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ((اربعوا علىٰ أنفسکم، إنکم لا تدعون أصم ولا غائبًا، إنه معکم إنه سمیع قریب)) [3] ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب کسی وادی پر پہنچتے تھے تو زوروشور سے تکبیر اور تہلیل کے نعرے بلند کرتے تھے۔ اس پر آپ نے فرمایا: اے لوگو! وقار کے ساتھ چلو، تم جس کو پکار رہے ہو وہ نہ بہرہ ہے اور نہ غائب۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہے، سب کچھ سنتا ہے اور بہت قریب ہے۔ ‘‘
[1] سنن ابوداؤد:2629 [2] ایضاً: 2628 [3] صحیح بخاری:2830