کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 52
((ماکانت هذه تقاتل ))’’یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی‘‘ اور سالارِ فوج حضرت خالد کو کہلا بھیجا: (( لاتقتلن امرأة ولاعسیفا)) [1] ’’عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔‘‘ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی عام ممانعت فرما دی ((فنهٰي النبي عن قتل النساء والصبيان))[2]’’نبی کریم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے روک دیا ۔‘‘ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لاتقتلوا شیخًا فانیًا ولاطفلا صغیرًا ولاامرأة ولاتغلوا وضموا غنائمکم وأصلحوا وأحسنوا إن الله یحب المحسنین)) [3] ’’ کسی بوڑھے ضعیف ، چھوٹے بچے اور عورت کو قتل مت کرواور اموالِ غنیمت میں چوری نہ کرو۔ جنگ میں جو کچھ ہاتھ میں آئے سب کوایک جگہ جمع کرو۔نیکی اور احسان کرو، اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔‘‘ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے ہدایت فرمادی کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا، جو کوئی جان بچا کر بھاگے اس کا پیچھا نہ کرنا اور جو اپنا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے، اسے امان دینا ۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی فوج بھیجتے تھے تو ہدایت کردیتے تھے کہ معابد کے بے ضرر خادموں اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل نہ کرنا: ((لاتقتلوا... أصحاب الصوامع)) [4] خلاصہ یہ کہ وہ تمام لوگ جو لڑنے سے معذور ہیں، قتال سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔لیکن اگر بیمار فوجوں کی رہنمائی کر رہا ہو، عورت جاسوسی کر رہی ہو، بچہ خفیہ خبریں لارہا ہو یا مذہبی رہنما فوج کو جنگ کا جوش وجذبہ دلارہا ہو،تو اس کا قتل جائز ہو گا۔
[1] سنن ابوداؤد:2669 [2] صحیح بخاری:2852 [3] سنن ابوداؤد:2614 [4] مسند احمد:4/26