کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 50
بھی یہی فرمایا۔ [1] 5. چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔ [2] بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ راجح موقف بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں: 1.جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔ 2. احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔ 3. یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں: ’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘ [3] بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،[4] ابن قیم ،[5] امام شوکانی [6]اور نواب صدیق بن حسن قنوجی[7] شامل ہیں۔ نوٹ: آئندہ شمارے میں غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق کا شرعی حکم بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
[1] مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: 1245 [2] المغنی:10/351، زادالمعاد:5/204 [3] حجۃ البالغۃ:2/138 [4] مجموع الفتاویٰ:33/110 [5] زادالمعاد: 5/304 [6] نیل الوطار:6/265 [7] الروضة الندیة:2/42