کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 5
6. ویمن ایکٹ کی رو سے زنا اور قذف کی معروف شرعی سزا کے بجائے 5 سال قید اور زیادہ سے زیادہ 10 ہزار روپے جرمانہ کی سزائیں متعارف کرائی گئیں، حالانکہ شرعی حدود میں تبدیلی یا کمی بیشی کا اختیار کسی حاکم وقت یا مجتہد العصرتو کجا، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں ۔ 7. ان تمام تبدیلیوں پر مزید اضافہ یہ کہ فحاشی و بے راہ روی کے حوالے سے ان سزاؤں کے طریقۂ اجرا میں ایسی مضحکہ خیز تبدیلیاں کی گئیں کہ ان جرائم کی سزا کسی پر لاگو ہونا ہی ممکن نہ رہا۔راقم اس ایکٹ کی یہ خرابیاں قبل ازیں اپنے مختلف مضامین [1] میں بیان کرچکا ہے، جنہیں مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں اپیل ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ہی اس بارے میں محب ِاسلام حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگیااور 2007ء میں ہی اس ایکٹ کے خلاف ِاسلام ہونے کے بارے میں دو درخواستیں [نمبری ا،3۔آئی2007] وفاقی شرعی عدالت میں دائر کردی گئیں۔ پھر 2010ء میں درخواست [نمبری ا ۔آئی2010] بھی دائر کی گئی جس میں وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی گئی کہ اس ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات کا خاتمہ کیا جائے۔ 1. یاد رہے کہ پاکستان کا آئین وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ’’دفعہ نمبر 203 ڈی:عدالت اپنی تحریک یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے سکے گی اور فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم ان اسلامی احکام ( جس طرح کہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ) کے خلاف ہے یا نہیں؟جن کا حوالہ اس کے بعد اسلامی احکام کے طورپر دیا گیا ہے۔‘‘ دفعہ 203 ڈی کی شق نمبر1 کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت ِمذکورہ حکومت کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے مناسب موقع دے گی۔شق 2 کے تحت عدالت متعلقہ قانون کے خلافِ
[1] ’ویمن پروٹیکشن ایکٹ کے اسلام سے متصادم پہلو‘ اور’زنا بالجبر اور نام نہاد’تحفظِ حقوقِ نسواں بل‘شائع شدہ ماہنامہ محدث، دسمبر2006ء جلد۳۸،عدد۱۲/ص ۲ تا ۲۳ اور 26 تا 70