کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 49
سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔ مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل 1.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: (( لا طلاق ولا عتاق في غلاق)) [1] ’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘ اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔ 2. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت ہے: ’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘[2] ’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘ 3. صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس کا قول ہے: ’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘[3] ’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘ 4. ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ رحمہ اللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے
[1] مسند احمد:6/276 [2] سنن ترمذی : 1191 [3] صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق