کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 48
سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
2. اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔ [1]کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
3. ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔ [2]
4. اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔[3] اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
5. اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے
[1] تہذیب السنن لابن القیم:6/188
[2] زاد المعاد:5/206 تا 209
[3] ایضاً:5/204،205