کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 47
کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔ [1] 3. حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة [2] ’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘ 4. ایک حدیث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نفى لهم بعهدهم ونستعین اللّٰه علیهم)) [3] ’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔ [4] 5. اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔ [5] دلائل کا جائزہ 1. سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘[6] لہٰذا اس
[1] فتح القدیر:3/344 [2] ايضاً [3] صحیح مسلم:1787 [4] فتح القدیر:3/344 [5] الهدایة: 3/344 [6] المحلیٰ:10/304