کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 46
طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟ امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری رحمۃ اللہ علیہم کا بھی ہے۔[1] سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔ اَحناف اور ان کے مؤیدین کے دلائل 1. نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((لاقیلولة في الطلاق)) [2] ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘ 2. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ((ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة)) [3] ’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘ اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح
[1] الکفایة والعنایة:3/344 [2] نصب الرایة:3/222 [3] سنن ترمذی: 1184