کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 43
دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر [1]
’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
اکراہ کی اصطلاحی تعریف :’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔ [2]
مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہہ کر اپنے آپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
اس سلسلے میں احناف نے فسخ اور عدم فسخ کے مابین تفریق کوملحوظ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اکراہ خرید وفروخت اور اُجرت دینے میں ہو پھر تو وہ فسخ ہو جائے گا ، لیکن طلاق، عتاق (آزادی) اور نکاح میں فسخ کا احتمال باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جو شخص بیع و تجارت کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد بیع کرلے تو اس کو اختیار ہے، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے یا پھر فسخ
[1] اللسان:5/3865
[2] معجم لغة الفقهاء:ص85