کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 42
(وبعضه) کا اضافہ اس لیے کیاہے کہ اس میں طلاقِ رجعی بھی داخل ہو جائے ۔ [1]
طلاق کی مشروعیت پر دلائل
1.طلاق کی مشروعیت پر کتاب وسنت اور اجماع سے بھی واضح دلائل موجود ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے :
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ1 فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ﴾ [2]
’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘
2. ایک جگہ ارشاد ہے:﴿يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ ﴾[3]
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُنکی عدت میں طلاق دیا کرو‘‘
3. اِرشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:«إنما الطّلاق لمن أخذ بالساق» [4]
’’طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو پنڈلی تھامتا ہے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کیا۔[5]
طلاق کی مشروعیت پر بیسیوں احادیث و آثار موجود ہیں۔ [6]
4. جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو صدرِ اوّل سے لے کر موجودہ زمانہ تک طلاق کے جواز پراجماع چلاآرہا ہے اور کسی ایک نے بھی اس کاانکارنہیں کیا۔ [7]
مجبوری (اِكراه) کی طلاق
الإکراه لغوی طور پر یہ أكْرَِهَ یُکْرِهُ سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر
[1] الروض المربع لابن قاسم:4826
[2] البقرۃ:229
[3] الطلاق:1
[4] سنن ابن ماجہ:2081
[5] سنن نسائی:3560،سنن ابوداؤد:2283
[6] نیل الاوطار:6/247، جمع الفوائد:1/671
[7] المغنی لابن قدامہ:10 /323