کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 41
جس سے اسلام کے انسانیت کی فلاح وسعادت کے دعوے کی بھرپور تصدیق وتائید ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں فقہا کے اَقوال و اَدلہ پیش کرنے کے بعد راجح موقف کو آخرمیں درج کیا جائے گا۔ ’طلاق‘ کی لغوی تعریف یہ مصدر ہے:طلقت المرأة وطلقت تطلق طلاقا فهي طالق سے یعنی چھوڑنا، ترک کرنا اور الگ کر دینا ۔کہا جاتا ہے:طلق البلاد یعنی اس نے شہر چھوڑ دیا، اور أطلق الأسیر یعنی قیدی کو رہا کردیا۔اسی طرح یہ چند دیگر معانی پربھی دلالت کرتا ہے: ٭ اس کا اطلاق پاک، صاف اور حلال پر بھی ہوتا ہے۔کہاجاتا ہے :هو لك طلق یعنی وہ تیرے لیے حلال ہے۔ ٭ اسی طرح بُعد اور دوری پربھی بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے:طلق فلان ’’فلاں شخص دور ہوا‘‘ ٭ اسے خروج اور نکلنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے جیساکہ أنت طلق من هذا الأمر[1] ’’یعنی تو اس معاملے سے خارج ہے۔‘‘ مذکورہ معانی پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو مقصود لفظ ’طلاق‘ اور ان میں ہم یک گونہ ربط پاتے ہیں۔جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اسکو چھوڑ رہا ہوتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے اسے حلال کررہا ہوتا ہے۔ اس سے دوری اختیار کر رہا ہوتا ہے تو اس عقد سے بھی نکل رہا ہوتا ہے جو ان دونوں کو جمع کیے ہوئے تھا،چنانچہ لفظ طلاق میں یہ تمام معانی جمع ہو جاتے ہیں۔ [2] طلاق کی شرعی تعریف طلاق کی شرعی تعریف کے سلسلہ میں فقہائے کرام کی طرف سے متعدد عبارات دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ان میں سے جامع و مانع تعریف اس طرح ہوگی: حل قید النکاح (وبعضه) في الحال أوالمآل بلفظ مخصوص [3] ’’حال یا مستقبل میں کسی مخصوص لفظ کے ساتھ نکاح کی گرہ کھولنا۔‘‘ یہ تعریف الدر المختار کی ہے جس پر اہل علم کااتفاق موجود ہے۔میں نے اس میں
[1] اللسان:4/2696، مجمل اللغہ:3/330 [2] حافظ ابن حجر فی فتح الباری :9/258 [3] الدر المختار:4142