کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 40
فقہ واجتہاد ہانی بن عبد اللہ بن محمد جبیر ترجمہ: عمران اسلم [1] مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم انسانوں کی اصلاح سے خالق حقیقی جل جلالہ سے بڑھ کر اور کون آگاہ ہو سکتا ہے، جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے اور کوئی ذات بھی ایسی نہیں ہے جو انسانی حالات و وقائع سے اس سے زیادہ باخبر ہو۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ1 وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ [2] ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘ وہ بابرکت ذات جس نے نفس انسانی کو بنایا اور اس کی نیکی و بُرائی اور اس کے ابہام کو جانتی ہے کہ انسان کس طرح مائل بہ نیکی ہوسکتا ہے اور کیسے تقویٰ کے راستوں پر گامزن ہوسکتا ہے، اگرچہ اس دور میں نام نہاد تجدد اور آزادی کے دعویدار انسان کی فلاح کے لاکھ دعوے کریں۔ فرمان عالی شان ہے: ﴿وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ1 وَ يُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا﴾ [3] ’’اور اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کردور نکل جاؤ۔‘‘ مذہبِ اسلام میں حیاتِ دنیوی کے حوالے سے منفرداور بے مثال ہدایات موجود ہیں۔ سعادت و کامرانی کایہ واحد مذہب ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی جمیع مشکلات و مصائب کا حل موجود ہے۔ذیل میں ہم انسانی زندگی کے دو اہم مسائل ’’مجبوری اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق اور اسکے وقوع یا عدمِ وقوع‘‘ کے بارے فقہاے اسلام کی آرا پیش کررہے ہیں
[1] سکالر مجلس التحقیق الاسلامی، ماڈل ٹاؤن، لاہور ..... نظرثانی : شیخ مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ [2] الملك:14 [3] النساء:27