کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 4
ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی خلاف ِاسلام دفعات؛ شرعی عدالت میں جیسا کہ سطورِ بالا میں ہم نے عرض کیا ہے کہ ویمن پروٹیکشن ایکٹ[1] کا اصل مقصد تو اسلامی معاشرہ میں امن وامان اور عفت وعصمت کے کسی حد تک ضامن حدود قوانین کو مزید غیرمؤثر کرنا اور پاکستانی معاشرے میں بے راہ روی کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹیں ختم کرنا تھا،کیونکہ ایک مسلم معاشرہ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے لئے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا جس کے لئے نام نہاد ’ویمن پروٹیکشن ایکٹ‘کے ذریعے یہاں حکومتی سرپرستی میں فضا سازگار کی جاتی رہی۔ آج ملک بھر میں ٹی وی چینلوں، ویب سائٹس اور موبائل فونوں کے ذریعے فحاشی وعریانی کا جو سیلاب آیا ہواہے، اور نوجوان لڑکے لڑکیاں بے راہ روی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس پر کئی حساس اہل قلم بڑے دردِدل کے ساتھ لکھ رہے ہیں اور وہ ماں باپ تو آئے روز بے حیائی کے اس ناسور سے زندہ درگور ہو رہے ہیں جن کے بچے بچیاں کھلنڈرے پن اور جوانی کے نشے میں مدہوش ہیں۔ 1. ’ویمن پروٹیکشن ایکٹ‘کے ذریعے اسلامی حدود قوانین کے برعکس مبادیاتِ زنا مثلاً بوس وکنار اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کو ناقابل سزا قرار دیا گیا تھا۔ 2. مزید برآں 16 سال سے کم عمرلڑکی کی ہر طرح کی بے راہ روی کو (ازخود یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ لازماً جبری زنا کا ہی شکار ہوئی ہے) اُسے ہرقسم کی سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔ 3. اورشوہر کیلئے یہ قانون سازی کی گئی تھی کہ اگر وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو اسے زنا بالجبر سمجھا جائے گاجس کی سزا 25 سال قید یا سزائے موت ہوگی۔ 4. اس ایکٹ کے ذریعے حدود قوانین کے نام سے شرعی قوانین مثلاً زنا ، قذف اور لعان وغیرہ کی سزاؤں کی دیگر انگریزی قوانین پر برتری کو بھی ختم کیا گیا تھا۔ 5. نیز اس ایکٹ کے ذریعے صوبائی حکومت اور صدرِمملکت کو بلا قید تمام سزاؤں کو معاف کرنےکا بھی اختیار عطا کیا گیا تھا۔
[1] اس ایکٹ کا اصل نام تو ’کرمینل لاء امینڈمنٹ 2006ء‘ یعنی فوجداری ترمیمی بل2006ء تھا، جسے طبقہ خواتین کی بے جا حمایت حاصل کرنے کے لئے مذکورہ مغالطہ آمیز نام دیا گیا۔