کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 3
اس ایکٹ میں حیلہ بازی کرتے ہوئے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبۂ خیروصلاح کے سپرد کردیا گیاہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کے دعویٰ سے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی بہت بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری کے دنوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے ا س کے خلاف رائے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ برا ت بھی کیا تھا، دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹرز اور ہینگرز عام نظر آتے رہے۔اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل رہیں حتیٰ کہ اس ایکٹ کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی جن میں غیرمسلم بھی شامل تھے۔یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی احتجاج تھا جس کا سامنا اس غیراسلامی قانون کو کرنا پڑا۔
قانون کی منظوری اور بحث مباحثہ کے دنوں میں ہی ملک کی نمائندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاستدانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ اگر حکومت اکرام ِخواتین کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو اختلاطِ مرد وزَن کے بے باکانہ رویوں کو کنٹرول کرے،کیونکہ منظور شدہ ایکٹ میں تو صرف ’زناکاروں کے حقوق‘ کاتحفظ کیا گیا ہے جب کہ پاکستانی خواتین کے لئے اس میں کوئی ریلیف نہیں ہے ۔پاکستانی خواتین جن سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں،ان کے لئے بہت سے دیگرقانونی اقدامات کئے جاسکتے ہیں جن سے اُن کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے،لیکن ایسی تمام آوازوں کو اَن سنی کر کے حقیقی مسائل سے صرف ِنظر کیا جاتا رہا۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہئےکہ حدود آرڈیننس بھی کوئی بڑا معیاری قانون نہیں تھا جو کتاب وسنت کے عین مطابق ہو، تاہم شرعی ماحول پیداہونے کی بنا پر اس کی تائید کی جاتی رہی۔ ہمارا زیر نظر تبصرہ بھی اسی نقطہ نظر سے پیش خدمت ہے: