کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 28
جس پر بزعم خویش نئی مذہبی سوچ کی بنیاد بڑے بلند دعوؤں کے ساتھ رکھی گئی تھی۔
٭ اِس روایت کی پہلی سند جو ابن ماجہ میں ہے، تین علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے۔
٭ جبکہ دوسری سند جو مسند احمد ،[1] حاکم، طبرانی، حلیۃ الاولیاء وغیرہ میں ہے۔ اِس میں عبد الواحد بن زید بصری منکر الحدیث اور متروک راوی ہے۔
٭ اور رہی تیسری سند حلیہ الاولیاء والی تو اِس کی حالت تو پہلی دونوں سے بھی زیادہ خراب ہے، اِس میں عطاء بن عجلان منکر الحدیث، متروک اور کذاب ہے۔
نہ تو یہ راوی اور سندیں کسی دوسرے کا متابع بن کر اُس کو قوت دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا اِن کو کیونکہ متابعت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ
أن لا یکون الضعف شدیدًا، أن تعتضد بمتابعة أو شاهد مثله أو أقوی منه، أن لا تخالف روایة الأوثق أو الثقات [2]
’’ضعف شدید نہ ہو، اس کو اس کے مثل یا اس سے زیادہ قوی متابعت یا شاہد کی تائید حاصل ہو، اور یہ کہ یہ اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کی روایت کے خلاف بھی نہ ہو۔‘‘
لہٰذا نہ تو یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور نہ ہی اس سے ان حضرات کا یہ دعویٰ ثابت ہوتا ہے کہ ’’اُمت ِمسلمہ میں شرک نہیں پایا جا سکتا اور کوئی مسلمان شرک نہیں کر سکتا۔‘‘
اسی طرح مسند احمد،حلیۃ الاولیاء[3] اور ان سے سیر اعلام النبلاء[4] کے حوالے سے شداد بن اوس سے ہی ایک اور روایت بیان کی جاتی ہے جس میں جزیرۃ العرب کی قید بھی ہے لیکن اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے اور پھر اس میں لا يعبدون شمسًا ولا قمرًا ولا حجرًا ولا وثنًا کے زیر بحث الفاظ بھی نہیں ہیں،لہٰذا اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔اللہ تعالیٰ خالص قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنے کی توفق مرحمت فرمائے۔ آمین!
نوٹ:بعض اقتباسات کے حوالے متن میں مذکور نہیں دراصل آخری حوالہ اس سے قبل کے حوالہ جات کو شامل ہے۔
[1] مسند احمد:4/124
[2] ضوابط الجرح والتعدیل: ص 130
[3] مسند احمد:4/126، حلیۃ الاولیاء:1/269
[4] سیر اعلام النبلاء: 2/461، دوسرا نسخہ: 3/453