کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 27
’’ اور عمرو بن علی نے کہا کہ یہ (عطا بن عجلان) کذاب تھا۔‘‘
14. امام ابو زرعہ کہتے ہیں : ’’یہ ضعیف (راوی) ہے۔‘‘
15. امام ابو حاتم فرماتے ہیں: ’’یہ (انتہائی) ضعیف الحدیث اور انتہائی منکر الحدیث ہے۔‘‘
16. امام ابو داؤد فرماتے :لیس بشيء ’’یہ کچھ بھی (حیثیت والا)نہیں ہے ۔‘‘
17. امام نسائی فرماتے ہیں: لیس بثقة ولا یکتب بحدیثه
’’یہ ثقہ نہیں ہے اور اِس کی بیان کردہ حدیث کو لکھا (بھی) نہیں جائے گا۔‘‘
18. امام ترمذی فرماتے ہیں: ’’یہ ضعیف اور ذاهب الحدیث ہے۔‘‘
19. امام جوزانی فرماتے ہیں :’’یہ کذاب ہے۔‘‘
20. علی بن الجنید فرماتے ہیں: ’’یہ راوی متروک ہے۔‘‘
21. امام ازدی اور امام دار قطنی نے بھی ایسے ہی کہا ہے۔
22. ابن شاہین نے اِس کو ضعفا میں ذکر کیا ہے ۔
23. ابن معین نے کہا کہ لیس بثقة ولا مأمون
’’یہ عطاء بن عجلان نہ ثقہ ہے اور نہ ہی مأمون ۔‘‘
24. امام طبرانی فرماتے ہیں:
’’یہ راوی روایت میں ضعیف ہے اور کئی چیزیں بیان کرنے میں متفرد ہے۔‘‘
25. ساجی کہتے ہیں: ’’یہ منکر الحدیث ہے۔‘‘
26. ابن حیان کہتے ہیں :کان یتلقن کلمة لقن ویجیب فیما یسئل حتی یروی الموضوعات عن الثقات [1]
’’اِسے جو کلمہ تلقین کیا جاتا تو یہ تلقین قبول کر لیتا تھا۔ حتیٰ کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایتیں بیان کرنے لگا ۔‘‘
خلاصۂ بحث
قارئین کرام! یہ تھی شداد بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کی سندکی حقیقتِ حال
[1] تہذیب التہذیب: 7/208، 209