کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 25
روایت کرتا ہے۔‘‘ نیز امام صاحب فرماتے ہیں: من قلت فیه منکر الحدیث فلا تحل الروایة عنه [1]’’جس کے بارے میں میں یہ کہہ دوں کہ یہ منکر الحدیث ہے تو اُس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘ یہ تو صورتحال تھی پہلے متابع کی، اب آتے ہیں دوسرے متابع کی طرف جس کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے: دوسرا متابع یہ روایت حلیۃ الأولیاء [2] میں عطاء بن عجلان عن خالد محمود بن الربیع عن عبادة بن نسی عن شداد بن أوس سے مروی ہے۔اس کے متن کے الفاظ عبد الواحد بن زید بصری کے روایت کردہ الفاظ ہی ہیں۔ 1. اِس سند میں راوی ابو محمد عطا بن عجلان بصری عطار کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’یہ متروک ہے بلکہ ابن معین اور فلاس نے اِس کو کذاب کہا ہے۔‘‘ [3] 2. امام نسائی فرماتے ہیں: مُنکر الحدیثہے۔ [4] 3. امام ابن معین فرماتے ہیں: ’’یہ کچھ بھی نہیں ہے (بس) کذاب ہے۔‘‘ اور ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’اس کے لئے حدیث گھڑی جاتی تھی اور یہ اِس کو روایت کر دیتا تھا۔‘‘ 4. فلاس فرماتے ہیں: ’’یہ کذاب ہے۔ ‘‘ 5. امام بخاری فرماتے ہیں : ’’یہ منکر الحدیث ہے۔‘‘ 6. امام ابو حاتم اور امام نسائی فرماتے ہیں : ’’متروک ہے۔‘‘ 7. امام دار قطنی فرماتے ہیں: ’’یہ ضعیف ہے (اور متابعات و شواہد میں بھی) قابل اعتبار نہیں ہے اور ایک مرتبہ فرمایا کہ یہ متروک ہے۔‘‘[5]
[1] ضوابط الجرح والتعدیل: ص 148 [2] حلیۃ الاولیاء:1/268 [3] تقریب التہذیب: ص 239 [4] کتاب الضعفاء والمتروکین: ص 272 [5] میزان الاعتدال: 3/72