کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 21
’’ یہ روایت صحیح کیسے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اِس میں عبد الواحد بن زید متروک (راوی) ہے۔‘‘ [1]
3. علامہ البانی فرماتے ہیں:
’’ حاکم نے کہا ہے کہ اِس کی سند صحیح ہے۔ جبکہ امام ذہبی اور اُن سے پہلے امام منذری نے اِس کا تعاقب کیا ہے کہ اِس میں عبد الواحد بن زید زاہد، قصہ گو اور متروک راوی ہے۔‘‘ [2]
4. امام ذہبی اور امام ابن الملقن بھی امام حاکم کا تعاقب ورد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ متروک ہے ۔‘‘ [3]
5. علامہ البانی فرماتے ہیں:
’’یہ روایت ضعیف جدًا یعنی انتہائی ضعیف ہے۔‘‘ [4]
6. شیخ شعیب أرناؤوط اور مسند احمد کی تحقیق میں اُن کے ساتھ محققین کی جماعت نے کہا ہے کہ اِس روایت کی سند ضعیف جدًا (انتہائی ضعیف) ہے۔ [5]
7. علامہ مختار احمد ندوی شعب الایمان کی تحقیق وتعلیق میں اسی مذکورہ روایت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إسناده ضعيف، عبد الواحد بن زيد متروك الحديث
’’اس روايت کی سند ضعیف ہے اسمیں عبد الواحد بن زید ومتروک الحدیث ہے‘‘
8. اور امام ہیثمی فرماتے ہیں: فيه عبد الواحد بن زيد وهو ضعيف
’’اس میں عبد الواحد بن زید ہے اور وہ ضعیف ہے ۔‘‘ [6]
9. امام نسائی فرماتے ہیں: ’’یہ متروک الحدیث ہے۔‘‘ [7]
[1] الترغیب والترہیب: 1/71 طبع دار الکتب العلمیہ، بیروت
[2] ہدایۃ الرواۃ :5/67
[3] تلخیص حاشیہ مستدرک 5/248
[4] ضعیف الترغیب والترہیب:1/29
[5] الموسوعة الحدیثیة مسند احمد 28/347 ،طبع دوم، بیروت
[6] مجمع الزوائد:3/202
[7] الضعفاء والمتروکون: ص 152، دوسرا نسخہ ص 292،رقم 370