کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 19
’’غلطیاں کرتا اور (ثقات کے) خلاف روایتیں بیان کرتا ہے۔ ‘‘
12. یعقوب بن سفیان نے کہا کہ ’’یہ حدیث (بیان کرنے) میں ضعیف ہے۔‘‘
13. امام دار قطنی فرماتے ہیں:’’ یہ متروک ہے۔‘‘
14. امام ابو احمد حاکم فرماتے ہیں:تغیر بآخرة فحدث بآحادیث لم یتابع علیه
’’آخر میں اِس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ پس اس نے ایسی ایسی حدیثیں بیان کیں جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
15. امام محمد بن عوف الطائی فرماتے ہیں: دخلنا عسقلان فإذا بِرواد قد اختلط
’’ہم عسقلان میں داخل ہوئے۔پس رواد كو اختلاط ہو چکا تھا۔‘‘
16. امام ساجی فرماتے ہیں:عنده مناکیر ’’ اِس کے پاس منکر روایتیں ہیں۔‘‘
17. حفاظ نے کہا کہ کثیرًا ما یخطئ ویتفرد بحدیث ضعفه الحفاظ فیه وخطؤه
’’اکثر غلطیاں کرتا اور ایسی حدیثیں بیان کرنے میں متفرد ہے۔ جن کی وجہ سے حفاظ نے اِس کو ضعیف اور خطاکار قرار دیا ہے۔‘‘
18. ابن معین سے مروی ہے کہ لا بأس به إنما غلط في حدیث سفیان
’’اِس میں کوئی حرج نہیں۔ اِس نے سفیان کی حدیث میں غلطیاں کیں ہیں‘‘
19. اور اِن سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ ثقہ ہے۔
20. امام احمد فرماتے ہیں: ’’صاحب ِسنت ہے ،اِس میں کوئی حرج[1] نہیں ہے۔‘‘ [2]
21. مفتی احمد یار خان نعیمی ایک حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے ایک راوی کو ضعیف اور دوسرے کو مجہول کہنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ان دو نقصوں کی وجہ سے ہی یہ (روایت) ناقابل عمل ہے۔‘‘ [3]
[1] پہلے مذکور جرح کرنے والے ائمہ کے مقابلہ میں بعض کے اِس کو صدوق کہنے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ اِن صدوق کہنے والے ائمہ نے خود بھی اِس راوی پر جرح کی ہے اور پھر اِن کا اِس کو صدوق کہنا باقی ائمہ کے بھی خلاف ہے۔ جنہوں نے اِس پر جرح کر رکھی ہے ۔ یوں بھی جرحِ مفسر جمہور کے نزدیک تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔ (ضوابط الجرح والتعدیل ص 44)
[2] تہذیب التہذیب:3/289
[3] جاء الحق،ص 520،طبع جدید