کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 17
’’یہ حسن بن ذکوان سے روایت کرتا ہے اور اِس (یعنی عامر) سے رواد بن جراح روایت کرتا ہے۔ (اِس میں) نکارت ہے۔ ‘‘
4. امام ابن عدی جرجانی فرماتے ہیں: منکر الحدیث ہے ۔ [1]
5. حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’یحییٰ بن معین کے اِس کے بارے میں (دو) مختلف قول ہیں۔ابن عبد البرقی نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ یہ ثقہ ہے اور عباس الدوری نے اِس کے بارے میں اُن سے بیان کیا ہے کہ لیس بشيء یہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ [2]
محدثین کے ہاں لیس بشيء جرح کے الفاظ میں سے ہے جو راوی کے ضعیف ہونے کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔
تیسری علت: اِس میں ایک راوی روّاد بن الجراح ہے جس کے بارے میں
1. امام دار قطنی فرماتے ہیں :’’یہ متروک ہے ۔‘‘ [3]
2. امام ذہبی فرماتے ہیں: له مناكیر ضُعّف [4]
’’اِس کی (بیان کردہ روایتیں) منکر ہیں، اِسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔‘‘
3. امام زیلعی لکھتے ہیں: قال الشیخ في الإمام لیس بالقوي [5]’’یہ قوی نہیں ہے۔‘‘
4. امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لیس بالقوی روی غیر حدیث منکر وکان قد اختلط [6]
’’یہ قوی نہیں ہے ۔اِس نے کئی ایک منکر حدیثیں روایت کی ہیں اور اسے اختلاط ہو گیا تھا۔ ‘‘
5. امام ابن الجوزی فرماتے ہیں:
[1] میزان الاعتدال: 2/361
[2] تعجیل المنفعۃ: ص 207
[3] میزان الاعتدال 1/55
[4] الکاشف 1/243
[5] نصب الرایۃ: 1/188
[6] کتاب الضعفاء والمتروکین :ص 290