کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 16
اِس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘ [1] 6. امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ’’عجیب و غریب روایتیں بیان کرنے والا اور منکر الحدیث ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ کان قدریا ’’یہ قدری (تقدیر کا منکر) تھا۔ ‘‘ 7. امام احمد بن حنبل بھی فرماتے ہیں: أحادیثه أباطیل ’’اس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘ 8. امام اثرم فرماتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ سے پوچھا کہ آپ حسن ذکوان کے متعلق کیا فرماتے ہیں: ’’تو اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیان کردہ حدیثیں باطل ہیں۔‘‘ 9. امام آجری امام ابو داؤد سے بیان کرتے ہیں کہ کان قدریًا ’’یہ قدری تھا۔‘‘ (امام آجری) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ زعم قوم أنه کان فاضلا. قال ما بلغنی عنه فضل [2] ’’کچھ لوگ اُسے (عالم) فاضل گمان کرتے ہیں تو (امام ابو داؤد) نے جواب دیا کہ مجھے تو اُس کے فضل والی کوئی بات نہیں پہنچی۔‘‘ دوسری علت: اِس روایت کے ضعیف ہونے کی دوسری علت عامر بن عبد اللہ ہے۔ 1. حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ’’ روّاد کا شیخ عامر بن عبد اللہ مجہول ہے۔‘‘ [3] 2. امام منذری فرماتے ہیں: لا یعرف ’’یہ راوی معروف نہیں،(یعنی مجہول) ہے۔ ‘‘[4] 3. امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عن الحسن بن ذکوان وعنه روّاد بن الجراح نکرة [5]
[1] تحریرتقریب التہذیب:1/273 طبع بیروت [2] تہذیب التہذیب: 2/277 [3] التقریب: ص 161 [4] الترغیب والترہیب 1/71، طبع دار الکتب العلمیہ، بیروت [5] الکاشف: 2/51