کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 15
’’اِس نے عمرو بن ابو خالد کا واسطہ گرا کر تدلیس کی ہے۔ ‘‘
4. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،امام ابن عدی جرجانی رحمہ اللہ سے ایک روایت کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ
إنما سمعها الحسن من عمرو بن خالد عن حبیب فأسقط الحسن بن ذکوان عمرو بن خالد من الوسط [1]
’’ اِس روایت کو حسن نے عمرو بن خالد سے سنا۔ پس حسن بن ذکوان نے درمیان سے عمرو بن خالد کو گرا دیا۔‘‘
5. نیز ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
فقیل للحسن بن ذکوان سمعته من الحسن قال: لا قال العقيلي ولعله سمع من الأشعث يعني فدلسه [2]
’’حسن بن ذکوان سے پوچھا گیا کہ (کیا) تو نے اِس کو حسن سے سنا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ نہیں۔ امام عقیلی فرماتے ہیں کہ شاید اِس نے اِس کو اَشعث سے سنا ہو، یعنی اِس (حسن بن ذکوان) نے اِس میں تدلیس کی ہے۔‘‘
جہاں تک مدلس کی عن کے ساتھ بیان کردہ روایت کے قابل حجت نہ ہونے کی بات ہے تو علامہ امام عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمدلِّس لا یحتج بعنعنته إلا اَن يثبت سماعه من طريق آخر [3]
’’مدلس کی عن کے ساتھ بیان کی ہوئی روایت قابل حجت نہیں ہوتی اِلا کہ دوسری سند سے اس کا سماع ثابت ہو جائے۔‘‘
یہ سند حسن بن ذکوان کی تدلیس اور عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔بلکہ ڈاکٹر بشار عواد معروف اور شیخ شعیب ارناؤوط، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اِس راوی کو صدوق کہنے کا تعاقب/تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بلکہ (حسن بن ذکوان) ضعیف ہے۔ اِس کو یحییٰ بن معین، ابو حاتم رازی،امام نسائی، ابن ابی الدنیا اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے اور امام احمد فرماتے ہیں کہ
[1] تہذیب التہذیب:2/277
[2] ایضًا
[3] عمدة القاری: باب الوضوء من الحدث 2/589