کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 12
ہیں۔پھر ان11 میں سے جن 7 جرموں کی سزا دینا مقصود ہے ، ان کو پولیس کی عمل داری میں رکھا گیا ہے اور اس کے مجرم کو بلاوارنٹ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہےاور وہ تمام زنا بالجبراور اس سے متعلقہ جرائم ہیں جن میں خواتین سزا سے مستثنیٰ ہیں (اور یہی اس بل کی وجہ تسمیہ ہے)، جبکہ پانچ جرائم محض نمائشی ہیں جن میں بچے کچھے حدود قوانین کے دوجرائم بھی شامل ہیں۔‘‘ [1] ویمن ایکٹ کا اہم مسئلہ اس کے لئے مجوزہ پروسیجرل لاء کے ناقابل عمل تقاضے ہیں،جیسا کہ اوپر مختصراً ذکر ہوا۔ جبکہ ابھی تک باقی رہ جانے والی قانونی خرابیوں میں صدر اور صوبائی حکومتوں کا اس کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار، شوہر پر زنا بالجبر کا مضحکہ خیز جرم اور اس پر سزا ئے موت کا ہونا بھی خلافِ اسلام ہیں۔ مزید برآں ثبوت ِزنا کے لئے پانچ گواہوں کا غیرشرعی مطالبہ یا زانی کے اعتراف کرلینے اور لعان کے دوران بیوی کے اعترافِ زنا کو ثبوتِ جرم کے لئے ناکافی سمجھناوغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو تاحال اس ایکٹ کا غیراسلامی حصہ ہیں۔ مسلمانانِ پاکستان کو چاہئے کوویمن پروٹیکشن ایکٹ کے ان باقی حصوں کے خلافِ اسلام ہونے پر بھی وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کریں۔ آج وطن عزیز میں امن وامان کی جو بدترین صورتحال ہے؛ ایسا کبھی نہ ہوتا، اگرہم نے اللہ سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے یہاں شرعی قوانین کو نافذ کیا ہوتا۔ شریعت ِاسلامیہ کے علاوہ کسی قانون میں ایسی قوت نہیں کہ وہ معاشرے میں امن وامان کے ضامن ہوں اور یہ بات آج بھی ترقی یافتہ مغرب اور اسلامی قوانین پر عمل پیرا سعودی عرب میں امن وامان کی صورتحال کے ایک تقابلی جائزے کے بعد بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ مسلمان فرد کیلئے اسلام کا سب سے بڑا انعام اطمینان وسکون کی فراوانی ہے اور کسی مسلم اجتماعیت کی سب سے بڑی نعمت امن وسلامتی ہیں جس پر قرآنِ کریم کی بہت سی آیات شاہد ہیں۔ آج اسلام کو چھوڑ کر ہم ہر لمحہ بے چینی واضطراب اورالم ناک قتل وغارت گری کا شکار ہیں، تب بھی حیرانی ہے کہ اپنے ربّ کی طرف کیوں رجوع کیوں نہیں کرتے!! (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
[1] مزید تفصیل کے لئے دیکھیں محدث،شمارہ دسمبر2006ء: ص22، 23