کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 11
کی برتری کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ حدود قوانین سے قریب تر دیگر قوانین میں ہیرا پھیری کے ذریعے جو اُنہیں شرعی سزاؤں اور تادیب سے دور رکھا گیا تھا، ان کو دوبارہ شرعی عدالت کے دائرہ عمل میں لانے کی تلقین بھی کی ہے۔ اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ ان شرعی سزاؤں کے بارے میں نہ صرف آرمی کورٹس، بلکہ دہشت گردی اور امتناع منشیات وغیرہ کے قوانین کی آڑ لے کر ان کو انگریزی قوانین کے دائرے میں نہ لایا جائے۔ بلکہ انہیں شرعی عدالت اور اس کے ماتحت عدالتوں میں ہی سماعت کیا جائے تاکہ مستغیث اور مدعا علیہ شرعی فیصلے سے استفادہ کرسکیں۔ شرعی عدالت کااپنے حقوق کو محفوظ کرنے کا رویہ قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اُصولی طورپر قیام پاکستان کے مقصد سے ہم آہنگ ہے جس کا تقاضا ہی یہ تھا کہ اس ملک کے باشندے اینگلو سیکسن لازکی بجائے اللہ کے دیے ہوئے شرعی نظام عدل میں اپنی زندگی گزاریں اور پاکستان میں اسلام کا ہرشعبے میں بول بالا ہو۔ تاہم اس موقع پریہ اضافہ کرنا اور یاددہانی کرانا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی خرابیوں میں سے صرف ایک تہائی کی ہی نشاندہی کی ہے۔ حالانکہ یہ پورا کا پورا ایکٹ ہی اس قابل ہے کہ اس کو خلافِ اسلام قرار دے کر مسترد کیا جائے۔ اس ایکٹ کی29 ترامیم کے نتیجے میں:حد زنا آرڈیننس 1979ء کی 22 میں سے 12 دفعات کو منسوخ اور 6 کو تبدیل کردیا گیا تھا جبکہ حد قذف آرڈیننس کی 20 میں 8 کو منسوخ اور 6میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد اوّل الذکر میں محض 4 دفعات اور ثانی الذکر آرڈیننس میں صرف 6دفعات اپنی اصل شکل میں باقی رہ گئی تھیں۔ راقم نےدسمبر 2006ء میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’اس بل کی خلافِ اسلام ترامیم کو اگر حذف یا درست بھی کردیا جائے تب بھی اس قانون کے نظام اجرا میں ایسے مسائل پیدا کردیے گئے ہیں کہ جس کے بعد معاشرے میں عملاً زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے ، اس لئے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ اس بل کے ذریعے حدود سے متعلقہ 9 جرائم کو تعزیراتِ پاکستان میں منتقل کردیا گیا ہے اورترمیم شدہ حدود آرڈیننس کے تحت صرف 2 جرائم ہی باقی رہ گئے