کتاب: محدث شمارہ 348 - صفحہ 10
آئین کے آرٹیکل 203 ڈی ڈی سے متصادم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 22جون تک شق نمبر11،25،28اور29 کو کالعدم قرار دے کر ترمیم کریں، بصورت دیگر یہ عدالتی فیصلہ بذات خود ترمیم سمجھا جائے گا۔ فیصلہ میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات ختم یا تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔‘‘ [1]
’’نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے چار شقوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔ عدالت نے زنا بالرضا کو بھی ناجائزاور حدود قوانین کے مطابق غیراسلامی فعل اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا کہ زنا کے بارے میں ایکٹ مذکورہ کے قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ [2]
تبصرہ وتجزیہ
وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ بالا فیصلہ ایک قابل قدر اقدام ہے اور ہم اس کو بنظر تحسین دیکھتے ہیں، بالخصوص اس تناظر میں جب کہ ویمن پروٹیکشن بل پر جاری قومی سطح کے مناظرے ومباحثے میں بعض سیاستدانوں (چودھری شجاعت حسین وغیرہ)نے قوم سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اگریہ ایکٹ کسی بھی طرح خلافِ اسلام ثابت ہوجائے تو وہ اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ اس موقع پر راقم الحروف کے علاوہ دیگر معروف علمائے کرام نےاس کی خلافِ اسلام دفعات کی نشاندہی کی تھی لیکن چودھری صاحب موصوف نے اس وقت ان کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ اب ایک آئینی عدالت نے اس ایکٹ کی چار دفعات کو خلاف اسلام قرار دے کر حکومت کو 22 جون 2011ءتک مہلت دی ہے کہ وہ متبادل قانون سازی کرے تو اسے کم ازکم ’دیر آید درست آید ‘کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس قدر تاخیر سے آنے والے فیصلہ کے درمیانی چار سالوں میں اس حوالے سے جو بےراہ روی ملک میں جگہ پاگئی ہے، اس کا خمیازہ تواہل پاکستان کو بھگتنا ہوگا۔
وفاقی شرعی عدالت کا یہ اقدام بھی قابل تحسین ہے کہ اس نے نہ صرف شرعی قوانین
[1] روزنامہ نوائے وقت، لاہور: 23 دسمبر 2010ء صفحہ 6
[2] روزنامہ انصاف، لاہور: 23 دسمبر 2010ء، صفحہ 7