کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 80
رکھتے۔آپ قناعت اور سادگی میں بہت سے لوگوں کے لئے بہترین مثال تھے۔ امانت و دیانت: ذاتی ڈائری میں اکثر آمدو خرچ کا حساب لکھتے ۔خصوصاً مدرسہ اور طلبہ کی ہر چیز کا اِندراج کرتے۔ امانت کی حفاظت اور اس کی کماحقہ ادائیگی کرتے۔تعاون مدرسہ/ چندہ کا مکمل حساب بر وقت جمع کرواتے۔بیرونی سفیروں ، محتاجوں اور حاجت مندوں کے لیے تعاون کی مؤثر اپیل کرتے۔کسی کی تکلیف اور صدمہ سے بے چین ہوتے اور اس کی دل جوئی کرتے کیونکہ؏ نہ ہو جس دل میں دردِ قوم وہ بھی کوئی دل ہے نہیں وہ دل نہیں بے درد کے سینہ میں اِک سل ہے علالت اورسفرِآخرت: ہرنیا کا کئی دفعہ آپریشن ہوا،گزشتہ سال بائیں جانب فالج کا حملہ ہوا جس سے آپ کو شفا ہو گئی ۔ جگر کی تکلیف ہوئی جس کا علاج جاری تھاکہ دوبارہ فالج کی تکلیف ہوگئی۔چند دن عزیز فاطمہ ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔ 17فروری2011ء بروزجمعرات گھر واپس آگئے۔ علاج جاری رہا،کمزوری بہت ہو گئی۔ کچھ طبیعت سنبھل رہی تھی کہ اَچانک24فروری2011ء بمطابق20 ربیع الاوّل 1432ھ بروز جمعرات صبح پانچ بجے آخری وقت آن پہنچا۔ معمولی سی ہچکی آئی اور کھچاؤ پیدا ہوا کہ روح پرواز کر گئی۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون! اسی دن عصر کے بعد آپ کی نمازِجنازہ مولانا حافظ محمد امین نے پڑھائی۔یہ جنازہ واقعی مثالی تھا۔دوردور سے علما،طلبا،احبابِِ جماعت اورواقف حضرات شامل ہوئے۔ رشتہ دار بھی بروقت پہنچ گئے۔ مغرب سے پہلے آپ کے جسدخاکی کوسپردِخاک کر دیاگیا۔ درخواست ِدعا: علما کرام، عزیز طلبا اور محترم قارئین سے اپیل ہے کہ مولانا مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا کریں ۔ان کی خدمات اورحسنات کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ان کی بشری لغزشوں سے درگزرفرمائے۔ادارہ کو ان کا نعم البدل عنایت فرمائے اور ورثا خصوصاً مولانا عطاء الرحمن کواللہ تعا لیٰ مرحوم کا حقیقی جانشین بنائے اور سب لواحقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے! مضى صاحبي واستقبل الدهر مصرعي ولا بد أن القــى حمــامـــي فاصــرعا ’’میرا ساتھی چلتا بنا،اب زمانہ میری موت کے درپے ہے۔ میری موت کا آنا بھی یقینی ہے اور مجھے گرا دیا جائے گا ۔‘‘ سپاسِ تعزیت از ادارہ اوراہل خانہ: مولانا خلیل احمدکی تیمارداری اورتعزیت کرنے والے تمام علما، طلبا اوراہل اسلام کاہم دلی شکریہ اداکرتے ہیں ۔ اس حوصلہ افزائی پرادارہ اور مولانامرحوم کے اہل خانہ ان کے ممنون ہیں ، اللہ تعالیٰ سب کوجزاےخیر اوراجرِعظیم عطافرمائے۔آمین!