کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 78
پاس مکمل کیا اور سند حاصل کی۔ طالب علمی کا دور: آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ فہم اور حافظہ سے نوازا تھا، دورانِ تعلیم بہت محنتی، پابند، مطالعۂ کتب کے شائق،علما، اساتذۂ کرام کے فرمانبردار اور مؤدب تھے۔ اَساتذہ بھی آپ کا بہت خیال رکھتے۔مدرسہ کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرتے۔ 17شعبان1388ھ بمطابق8 نومبر1968ء بروزجمعۃ المبارک کو آپ نے سند ِفراغت حاصل کی۔ آغازتدریس: علومِ اسلامی خصوصاًعلم حدیث میں مزید پختگی حاصل کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ، آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ میں داخلہ کا پروگرام بنایا جہاں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی تفسیر ، حدیث کا درس دیتے تھے۔ آپ کے ساتھ مولانا عبدالغفور، مولانا رفیع الدین فردوسی اورراقم الحروف عبدالمجید فردوسی بھی تھے۔نصابی کتب حاصل کر لیں ۔حضرت مولانا ابوالبرکات احمد مدارسی کے قیمتی نصائح سے مستفید ہوئے،اسی دوران حضرت الاستاذمولانا محمد یعقوب ملہوی اوڈانوالہ سے گوجرانوالہ تشریف لائے اور راقم الحروف اورمولانا خلیل احمد کو اوڈانوالہ لے آئے۔ جدید نظم ونسق کی تشکیل کے مراحل میں انہیں بھی مدرسے میں اُستاد مقرر کر دیا گیا۔ یہ18شوال المکرّم1388ھ بمطابق8جنوری1969ء بروزبدھ کی بات ہے۔75روپے وظیفہ مقرر کیا گیا اور استادصاحب نے فرمایاکہ جب میں نے1946ء میں پڑھاناشروع کیاتھا، میری تنخواہ چالیس روپے تھی۔اور استاذالاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی کی ابتدا میں تنخواہ 18روپے اورایک من گندم تھی، جب گندم کا ڈیڑھ روپے فی من ریٹ تھا ۔مولانا خلیل احمدصاحب اس دن سے لے کر تا وفات اوڈانوالہ مدرسہ میں بطورِمدرّس مقیم رہے اور مدرسہ سے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔ اندازِ تدریس: اَسباق کا مطالعہ کر تے، پوری تیاری سے پڑھاتے، ابتدائی کتابیں شروع کیں اور انتہائی کتب تک تدریس کی مسندسنبھالی۔ قدرت نے حافظہ، ذوق،شوق اور خلوص سے حصہ وافر عطا فرمایا تھا،طلبہ کو ہر طرح سے مطمئن کرتے۔اسباق اور حدیث کی عبارت سنتے۔اعرابی اغلاط کی اصلاح کرتے۔کسی مسئلے میں حوالے کی ضرورت ہوتی تو کتاب منگوا کر تحقیق کرتے۔مسلک اہل حدیث سے محبت اور کتاب وسنت کے دلائل بڑی خوش اُسلوبی واضح کرتے۔ طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھتے۔ اساتذہ،علما اور مصنّفینِ کتب کا ذکر احترام سے کرتے۔ضروری بات طلبہ کو نوٹ کرنے کی تلقین کرتے۔ یہی تصور جاگزیں تھا اور جس کی تلقین کرتے کہ! لو جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے کتابوں کے حوالے اوربعض ضروری،مفید نوٹ شروع کتاب میں درج کرتے۔اِصلاحات حواشی میں لکھتے۔علمی تاریخی اورضروری معلومات بحوالہ کتاب مع جلداورصفحہ ڈائری میں لکھتے۔