کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 77
يادِ رفتگاں مولانا عبد المجید فردوسی مولانا خليل احمد رحمہ اللہ ؛ حالات وخدمات موت اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو انکاراورفرار نہیں مگر علما کی موت عظیم سانحہ اورالم ناک حادثہ ہے جس کی تکلیف مدت تک محسوس ہوتی ہے۔ ایسے علما میں سے ہی ایک مولانا خلیل احمد تھے جن کی جدائی کا صدمہ تازہ تازہ ہے۔ مرحوم کے احوال اور زندگی کے کوائف حوالۂ قرطاس ہیں تاکہ ان کی یاد تازہ اور تابندہ رہے اور طلبہ اور نونہالانِ ملت استفادہ کرسکیں ۔؏ مرنے والا عزیز مر کر بھی زندہ رہتا ہے نیک یادوں سے خاندان، ولادت اور ابتدائی تعلیم: قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان موضع سنانہ روپڑ انبالہ ہندوستان سے ہجرت کر کے لیہ پنجاب چک نمبر 125 TDAنڑکی میں رہائش پذیر ہوا ۔ آپ کے والد صوفی محمد ابراہیم جبکہ دادا کا نام محمد شیخ انصاری تھا۔1947ء کے آ خر میں خلیل احمد پیدا ہوئے۔ آ پ چار بھائی تھے، وہیں دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن مجید والد مرحوم سے پڑھا۔پرائمری تک تعلیم حاصل کی، پھر لیہ شہر گورنمنٹ ہائی سکول میں مڈل کی تعلیم حاصل کی۔ آ پ کے والد محترم متوسط درجہ کے عالم، تبلیغ کے دلدادہ اور بزرگ علماے کرام کے تربیت یافتہ تھے۔ پنجابی اشعار خوب ازبر تھے۔ کافی عرصہ چوبارہ ضلع لیہ کی جامع مسجد اہل حدیث میں امام وخطیب رہے۔روپڑی علما کی بہت عزت وتکریم اوران کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے۔ اوڈانوالہ درس میں داخلہ: حضرت صوفی محمد عبداللہ(م1975ء)کے رفیق خادم محترم مولانا یوسف سفیرکے بیٹے مولانامحمد داؤدکے ساتھ اوڈانوالہ آئے۔24جون1962ء میں مدرسہ میں داخلہ لیا۔یہاں آپ نے مندرجہ ذیل اَساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی: 1 مولانا محمد شمعون صمیم وہاڑی 2 حضرت مولانا عبدالرشید اٹاروی 3 حضرت مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی حفظہ اللہ 4 شیخ الا دب حضرت مولانا عبدالصمد رؤف (متوفی 2005ء) 5 شیخ التفسیر و الحدیث حضرت مولانا محمد یعقوب ملہوی (م1981ء/1387ھ) 1967ء میں دورانِ تعلیم ہی دورۂ تفسیر حضرت مولانا محمد یعقوب بن مولانانور محمد ،گوجرہ کے