کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 75
سےمٹانے کا ایک نہایت منظم سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔پچھلے سات سالوں میں عراقی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں پروفیسر صاحبان اس کا نشانہ بن چکے ہیں او رہزاروں خوف زدہ ہوکر بیرونِ ملک جاچکے ہیں ، مگر اس علم دشمن مہم کی تفصیلات بہت کم ہی سامنے آئی ہیں ۔ ’بروسلز ٹریبونل‘ نامی ادارے کی ویب سائٹ پر دنیائے دانش کے ان ڈبو دیئے جانے والے ستاروں کی ایک فہرست موجود ہے جسے حتمی تو نہیں کہا جاسکتا مگر اس میں پچھلے سال کے اَواخر تک تمام دستیاب معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال یعنی 2010ء میں بھی مختلف عراقی یونیورسٹیوں کے گیارہ پروفیسر نامعلوم قاتلوں کانشانہ بنے۔اس قتل عام کو فرقہ واریت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔عراق پرغاصبانہ قبضہ کرنے والی استعماری طاقتوں کی جانب سے ان واقعات کی روک تھام کی کوئی کوشش کی گئی، نہ ان کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کی۔ عراق کی اصل مقتدر قوتوں کا یہ رویہ اس شبہ کی پوری گنجائش فراہم کرتا ہے کہ علم دشمنی کی یہ مہم ان کی مرضی اور منشا کے مطابق بلکہ ممکنہ طور پر ان ہی کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں چل رہی ہے۔ مغرب کے مین اسٹریم میڈیا میں تو اہل علم و دانش کے اس قتلِ عام کا کوئی خاص ذکر نہیں ہوا کیونکہ اس کا رویہ عموماً سرکاری پالیسیوں کے تابع ہوتا ہے تاہم مغرب کے باضمیر اور انصاف پسند اہل قلم نے جس طرح نائن الیون کی حقیقت سمیت افغانستان اور عراق کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سراسر ناجائز فوجی کارروائی کے بہت سےگوشے بےنقاب کئے ہیں ، اسی طرح وہ عراق میں ہونے والے اہل علم کے اس قتل عام کے حقائق کو بھی منظر عام پر لانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ وِکی لیکس کے حالیہ انکشافات نے بھی اس موضوع کو ازسرنو گرم کردیا ہے۔ ’فارن پالیسی اِن فوکس‘ نامی ایک آزاد اور ممتاز امریکی تحقیقی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے اس قتل عام کے بارے میں سب سے پہلے اپریل 2004ء میں ’عراقی ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ٹیچرز‘ کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی حملے کے بعد سے ایک سال کی مدت میں متعدد جامعات کی مختلف فیکلٹیوں کےسربراہوں سمیت ڈھائی سو سے زیادہ اساتذہ قتل کئے جاچکے ہیں ۔ برطانیہ کی ’ٹائمز ہائرایجوکیشن‘ نامی تنطیم کی ویب سائٹ پر 10 ستمبر 2004ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’عراق کےلوگ قتل کی ان وارداتوں کے محرکات واضح نہیں کرسکتے جن میں بڑا تناسب عمرانی علوم کی فیکلٹیوں کے ارکان کا ہے۔‘‘ بغداد یونیورسٹی میں جیالوجی کے ایک سابق اُستاذ ساحل السنوی نے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہ ’’عراقی سائنس دانوں کو تو دھمکیاں ملا کرتی تھیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ لسانیات کے اساتذہ کو