کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 74
عالم اسلام ثروت جمال اصمعی دورِ جدید کے چنگیز و ھلاکو کسی قوم کے لئے اس سے بڑی موت کیا ہوگی کہ تعلیم وتعلّم کے میدان میں قوم کے روحانی باپ اس سے چھین لئے جائیں ۔ اس قوم کا مستقبل بڑا ہی تاریک ہے جو علم سے یوں تہی دامن ہو جائے کہ وہاں علم کو پڑھانے اور کتابوں کے سمجھانے والے ذہین دماغ ہی نہ رہیں ۔ عالم کی موت دنیا بھر کی موت ہے اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق : ’’قربِِ قیامت علما کے اُٹھالئے جانے سے دنیا سے علم اُٹھا لیا جائے گا۔پھر دنیا میں بچ رہنے والے خود بھی گمراہ ہوں گے او ردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ آج کی مہذب دنیا میں ایسا ظلم کرنے والوں نے قرونِ وسطیٰ کے چنگیز وہلاکو کے مظالم کو بھی مات کردیا ہے،جنہوں نے سقوطِ بغداد کے بعد اتنی کتب جلائی تھی کہ کئی روز دجلہ وفرات کے دریاؤں کی رنگت تبدیل رہی۔ایک طرف امریکہ اہل اسلام سے یہ ظلم روا رکھتا ہے تو دوسری طرف اپنے فکر ونظریہ کو فروغ دینے کے لئے پاکستان میں مغرب نواز این جی اوز کو اربوں روپے کی امداد سے نوازتا ہے۔ حالیہ کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان میں نام نہاد خواتین حقوق کے لئے سرگرم’عورت فاؤنڈیشن‘ کو پونے چار ارب روپے کی امداد عطا کی گئی ہے تاکہ وہ اس طرح پاکستان کے ذہین دماغوں کی خدمات مغربی مفادات اور عالمی ایجنڈے کے فروغ کے لئے حاصل کرسکے۔ مغربی اہداف کی اس تکون کا تیسرا سرا امریکی حکومت کے وہ عالمی اقدامات بھی ہیں جن کے ذریعے آئے روز اسلام کی حقیقی تصویرپیش کرنے اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو مختلف میدانوں میں خدمات مہیا کرنےوالی ملکی اور عالمی اسلامی تنظیموں کو دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کے اکاؤنٹس کو منجمد اورخدمات کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد قرار دی جانے والی بہت سی تنظیموں کا اسلام کی خدمت کے سوا کوئی جرم نہ تھا۔ بہرحال اُمت ِاسلامیہ کو درپیش اس افسوسناک صورتحال کو سمجھنے کے لئے درج ذیل روح فرسا مضمون کا مطالعہ کیجئے جو روزنامہ ’جنگ‘ کی 10 جنوری 2011ءکی اشاعت میں چھپا ہے۔ ح م جاہل اور وحشی کہلانے والے چنگیزی لشکروں نے اگر آج سے صدیوں پہلے بغداد کے کتب خانوں کو جلا کر راکھ کردیا تھا تو دنیا میں علم و ہنر کی روشنی پھیلانے کے دعویدار تہذیب جدید کے امام بھی ان سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں ۔ عراق پر امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کے قبضے کے فوراً بعد ، کتابوں ہی کو نہیں ، کتابیں لکھنے اور کتابیں پڑھانے والوں کو بھی صفحۂ ہستی