کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 73
ہونے والی 95 فیصد آمدنی سیدھی خزانے میں جاتی ہے جو مغربی سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں جب اقوام متحدہ نے لیبیا پر پابندیاں عائد کی تھیں تو اس کی شرح نمو میں 42 فیصد کمی آگئی تھی۔ لیکن 2006ء میں امریکا کی جانب سے لیبیا کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کے بعد یہاں بہت تیزی کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری ہوئی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا جس کے نتیجے میں آج شرح نمو10.6 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک اس کی اس ترقی سے بھی خائف ہیں ۔ اب دوسری طرف آئیے، لیبیا میں شہری آبادی 84 فیصد ہے جبکہ 16 فیصد دیہی آبادی بڑی شاہراہوں کے ذریعے شہروں سے جڑی ہونے کے سبب خاصی خوشحال ہے۔ چونکہ لیبیا میں اُجرتیں بھی دیگر شمالی افریقی ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں ، اس لیے دنیا کے بیشتر ممالک سے افرادی قوت لیبیا کی طرف کھنچی چلی آتی ہے، جس کی وجہ سے شرحِ نمو میں اضافہ او رمعیشت میں استحکام آرہا ہے۔ ایک اور نقطہ نظر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی شورش بےشک عوامی رد عمل کانتیجہ ہے لیکن اس کے پش پشت تیل کی عالمی کمپنیوں کی دولت بھی کارفرما ہے۔ خاص طور پر لیبیا کے معاملے میں یہ ہاتھ صاف نظر آتا ہے کیونکہ جب سے مشرقِ وسطیٰ میں بحران شروع ہوا،تیل کی قیمتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا لیکن لیبیا میں اتحادی فوجوں کی کارروائی کے ساتھ ہی اضافہ کی شرح میں تیزی کا رجحان کم ہوگیا۔ لہٰذا جو تجزیہ نگار لیبیا میں ہونے والی شورش کے پیچھے مغربی ایجنسیوں کا ہاتھ دیکھ رہے ہیں ، وہ خاصی حد تک صحیح معلوم ہوتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پرعوامی اعتماد ہر ملک کے عوام کا اسلامی حق ہے۔ آمریت اور پشتینی بادشاہت کی مذمت کی جانی چاہیے، چاہے وہ لیبیا میں ہو یا کسی او رملک میں ۔ لیکن ساتھ ہی عالمی استعمار کی ترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت بھی جمہوریت پسند حلقوں کی ذمہ داری ہے۔عوام میں پائی جانے والی بے چینی کے نام پر کسی گماشتہ گروہ کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی بھی شدومد سے مخالفت کی جانی چاہیے۔ ہمیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ 1990ء میں جس نیوورلڈآرڈر کا تصور جارج بش سینئر نے پیش کیا تھا، اب اوباما انتظامیہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس عمل کی بہر حال مذمت اور مخالفت کی جانی چاہیے۔ (بہ شکریہ روزنامہ ’ایکسپریس‘ لاہور: 31 مارچ 2011ء)