کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 72
کرنے کا مقصد لیبیائی عوام کو جمہوریت سے فیض یاب کرنے سے زیادہ اس حکمران سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش شامل ہے جو نہ صرف مغربی ممالک بلکہ بیشتر عرب ممالک کےلیے گذشتہ 42 برس سے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اس لیے مشرقِ وسطیٰ میں کارروائیاں جمہوریت کے عظیم تر مفاد کی بجائے مغرب کے معاشی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہیں ۔ اس کے علاوہ امریکا ان ممالک کے دانت بھی نکالنا چاہتا ہے جو اس خطے میں اسرائیل کے لیے کسی قسم کا چیلنج بن سکتے ہیں ۔ عراق کے بعد شام اور لیبیا گو کہ فوجی اعتبار سے چیلنج نہیں ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں اسرائیل مخالف جذبات کو اُبھارنے او ران قوتوں کی مالی امداد کرنے کی پوزیشن میں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لیے کسی بھی وقت خطرہ بن سکتی ہیں ۔ خاص طور پر لیبیا جو اقتصادی طور پر اس قدر مضبوط اور مستحکم ہے کہ وہ مختلف جنگجو گروپوں کی کئی برس تک مالی امداد کرسکتا ہے جو اسرائیل کے وجود کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ لیکن سب سے بڑا ہدف تیل کے ذخائر پر قبضہ جمانا اور اس خطے کو اپنی ضروریات کے مطابق Restructure کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبیا میں عوامی بے چینی کا سبب مصر اور تیونس کی طرح معاشی بدحالی نہیں ہے بلکہ شخصی آزادی ہے۔ لیبیا سعودی عرب اور کویت کےبعد خطے کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں مغربی تصورِ اظہارِ رائے کے مطابق شدید قدغنیں عائد ہیں اور عوام کو حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کا حق نہیں ۔ عام طور پر یہ تصور ہے کہ 42 برس سے ایک متلوّن مزاج فوج آمر ملک کے سپیدہ و سیاہ کا مالک ہے جو موروثی حکمرانی قائم کرنےکی کوشش میں مصروف ہے۔ لیبیا کے عوام بندشوں اور پابندی سے اکتاہٹ کا شکار ہوکر تبدیلی کے لیے میدانِ عمل میں کودے ہیں ۔ لیکن بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ لیبیا میں ہونے والے فسادات کے پیچھے مغربی منصوبہ سازوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی ہاتھ ہے جو اس ملک کو عدم استحکام کا نشانہ بناکر اس کے تیل کے ذخائر کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی خواہش مند ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لیبیا، جو دنیا کا تیل پیدا کرنے والا 12 واں بڑا ملک ہے اور جو روزانہ اوسطاً 41.5Gbbخام تیل نکالتا ہے،اس کے تیل کے ذخائر قومی ملکیت ہیں اور تیل نکالنے والی سب سے بڑی کمپنی نیشنل آئل کارپوریشن ہے جو تیل کی کل پیداوارکا 72 فیصد حصہ نکالتی ہے ۔ اس طرح غیر ملکی کمپنیوں کو صرف 28 فیصد تیل تک رسائی حاصل ہے۔ نتیجتاً تیل سے