کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 71
ہمیں یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ جدید مغربی ریاستی تصور کی رو سے کسی ملک کے عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی تبدیلی کریں ، اس مقصد کے لیے وہ کوئی بھی راستہ اختیارکرسکتے ہیں ۔ اگر ملک میں کثیر الجماعتی جمہوریت ہے تو پھر انتخابات تبدیلی کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن اگر شخصی یا فوجی آمریت مسلط ہو تو عوام کو احتجاج اور پُرتشدد مظاہروں کا طریقہ بھی اپنانا پڑتا ہے مگریہ خالصتاً اندرونی معاملہ ہوتا ہے جس میں بیرونی مداخلت پیچیدگیاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے لیکن جدید دنیا میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ جب دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کرچکی ہے تو کسی ایک ملک میں ہونے والی صورت حال دیگر ممالک پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوسکتی ہے، اس لیے آج کسی ملک میں رونما ہونے والے واقعات سے دوسرے ممالک لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ خاص طور پر جب عوام پر ریاستی تشدد اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو معاملہ کسی بھی طور اندرونی نہیں رہتا بلکہ حقوقِ انسانی کاعالمی مسئلہ بن جاتاہےمگر اس سلسلے میں دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نےمشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ہونے والی بے چینی پر ظاہر کیا ہے یعنی لیبیا پر تو سلامتی کونسل کی اجازت سے براہِ راست حملہ کردیا جبکہ بحرین میں سعودی عرب کی فوجی مداخلت پر خاموشی اختیارکرلی۔ جس کی وجہ سے صورتِ حال مزید پیچیدہ اور گنجلک ہوچکی ہے۔ مسلم دنیا میں امریکا او راس کے حلیف ممالک کے خلاف پہلی عراق جنگ 1991ء کے بعد سے شدید غم و غصّہ موجود ہے جس میں 11/9 کے بعد افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد شدت آئی ہے۔ اس صورتِ حال میں مجاہدین مسلمانوں سے ہم دردانہ جذبات وصول کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں مسلم Mindsetٹکراؤ کی طرف رجحان اختیار کررہا ہے جس کا فوری فائدہ بھی بہرحال مغربی استعماری قوتوں ہی کو پہنچے گا۔ اگر اس پوری صورتِ حال کا عالمی مسابقتی سوچ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو بات بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے۔ بحرین میں اس مفروضے کی بنیاد پر عوامی خواہشات کے برخلاف موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ شیعہ اکثریت اقتدار میں آکر لازمی طور پر ایران کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کرے گی جس سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے شورش کو طاقت سے کچلے جانے پر کوئی ردّ عمل ظاہرنہ کرو جبکہ لیبیا پر حملہ