کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 7
نہیں کی۔ یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کی فورسز نے عوام کو گولیوں کانشانہ بنایا مگر ان ممالک میں امریکہ اور مغربی ممالک کا جواب او رردّعمل بہت ہی کمزور رہا ہے تو پھر لیبیا کو اس ’خصوصی التفات‘کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ اس کا سادہ سا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ لیبیا کے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر استعماری ریاستوں کی یلغار کا حقیقی سبب ہیں ۔ گذشتہ چند دہائیوں میں بے حد تواتر سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ویت نام سے ہزیمت اُٹھانے کے بعد اب امریکی حکومت جس ملک پر جنگ مسلط کرنا چاہتی ہے، اس کے لیے اقوام متحدہ کی منظوری کا پردہ(Cover)استعمال کرتی ہے اور اسے خالصتاً امریکی جنگ کی بجائے ’اقوام عالم کی جنگ‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔اس کے لیے’انسانی حقوق‘ اور ’انسانیت کے تحفظ‘ کے بلند بانگ دعوؤں کا ڈھول بھی خوب پیٹا جاتا ہے۔ امریکی جانتے ہیں کہ عراق اور افغانستان پر جارحیت کے بعد مسلمانانِ عالم ان سے کتنی نفرت کرتے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ لیبیا میں اپنے خفیہ استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ کو کافی ’اخلاقی مسائل‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس لیے وہ لیبیا پر حملے کے لیے ایک دفعہ پھر NATOکو گھسیٹ لائے ہیں اور اس جنگی تھیٹر میں رقصِ ابلیس کی قیادت کے لیے فرانس کو آگے لایا گیا ہے جہاں سرکوزی نام کا ایک انتہائی متعصّب شخص صدارت کنے منصب پربراجمان ہے۔ لیبیا میں نو فلائی زون کاشوشہ بھی سب سے پہلے فرانسیسی صدر کے منہ سے چھوڑا گیا۔ 3. پیپ ایسکوبار(Pepe Escobar)بہت معروف امریکی دانشور ہیں ۔ وہ گلوبلائزیشن کے موضوع پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کے حالیہ کالم کا عنوان ہے: "Welcome to the new NATO quagmire" ’’نیٹو کی نئی دلّالی کی طرف خوش آمدید!‘‘ ایسکو بارنے اپنے کالم میں اپنے تئیں ایک خوبصورت لیکن درحقیقت دردناک جملہ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے: "Libya now is official victim of the endless war club." ’’اب لیبیا اس نہ ختم ہونے والے جنگی کلب کا سرکاری شکار ہے۔‘‘ ایسکو بار نےنیٹو کے قیام کے مقاصد اور اس کی تازہ فوجی کارروائی پرتنقیدکرتے لکھا ہے: