کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 69
﴿وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَھْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ﴾[1] ’’کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو، تمہی غالب ہو اگر مؤمن ہو۔‘‘ یہاں ہم اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم غیر ضروری طور پر بڑی طاقتوں سے اُلجھیں اور اپنے لئے مسائل پیدا کر لیں ۔ مسلمان اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک امن پسند قوم ہے لیکن ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کی وجہ کم از کم اتنا تو ضرور ہونا چاہئے کہ دنیا ہمیں ایک باوقار اور خود مختار قوم کی حیثیت سے جانے اور پہچانے۔ آخر میں مدیر محترم کی خدمت میں یہ گزارش ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کوئی ایسی مقدس اور متبرک شے نہیں جس کی تنقیص پر کبیرہ گناہ واجب ہوتا ہو، اپنے مختصر تبصرہ میں آپ نے سائنس کے بعض فوائدتو گنوائے ہیں ، لیکن انفرادی زندگی میں اس کی تباہ کاریوں اور اجتماعی زندگی میں اس کی ہلاکت خیزیوں سے قطعی طور پر صرفِ نظر فرمایا ہے، معلوم نہیں کیوں ؟ میری ناقص راےمیں انسانیت کےلئے سائنس کی خدمات کم اور اس کی تباہ کاریاں کہیں زیادہ ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو بات جوا اور شراب کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے وہ صدفی صد سائنس پر سچ ثابت ہوتی ہے:﴿وَإثْمُھُمَا اکبَرُ مِنْ نَفْعِھما﴾[2]ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ تاہم وطن کے دفاع کے لئے اس کا حصول یقیناً واجب ہے !! وَصَلَی اللهُ عَلَى نَبِیْنَا مُحمد وَاٰله وَأصحابه أجمعین وضاحت از مُدیر : فاضل مضمون نگار کے موقف سے ہمیں اتفاق ہے کہ جذبۂایمانی اور توکل واعتقاد کسی قوم کے عروج وزوال میں سائنس وٹیکنالوجی سے کہیں زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں ، بالخصوص پاکستان کے معاملے میں ۔جن سطور کے نیچے لائن لگائی گئی ہے، ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک بھی اُصولی طورپر اسلام میں سائنس وٹیکنالوجی کی نفی نہیں ہے۔میرا ڈاکٹر ندوی کے موقف کو ’قابل غور‘ قرار دینے سے اس کی افادیت کی طرف متوجہ کرنا ہی مقصود تھا۔سائنس کا حکم تو حالات وضروریات کے تابع ہے اور اس کی تعلیم بعض اوقات حرام ہوتی ہے، بعض اوقات مستحب اور کبھی واجب،جس کے لئے راقم کی تحریر ’اسلامی اور سائنسی علوم میں ایک تقابل‘ کو دیکھنا مناسب ہوگا۔ (محدث ، شمارہ ستمبر 2010ء)
[1] سورۃ آلِ عمران، آیت 139 [2] سورۃ البقرۃ :آیت 219