کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 68
قانونِ حدود کا مذاق اُڑائے، ڈالروں کے لالچ میں مجاہدین، محب ِوطن افراد اور قوم کی بیٹیوں کو بیچ ڈالے، جس ملک کا وزیر تعلیم قرآن مجید کے چالیس پارے بتائے، جس ملک کا وزیر اعظم خود ڈرون حملوں کی اجازت دے اور قوم کے سامنے ان کی مذمت کرے،جس ملک کے وزیر داخلہ کو سورۂ اخلاص تک پڑھنی نہ آئے۔ جس ملک کے ایک صوبہ کا گورنر قانون توہین رسالت کو کالا قانون کہے، جس ملک کے وزیر اعظم کے ایک مشیر صاحب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکھی ہوئی تفسیر پڑھ کر وفاق کا امتحان پاس کیا ہو، جس ملک کی اسمبلی کے بیشتر ارکان نہ صرف اَن پڑھ ہوں بلکہ جعلی ڈگریوں کی دھوکہ دہی میں ملوث ہوں ، جس ملک کے کلیدی عہدوں پر خائن اور مجرم قابض ہوں ۔ عدالت اُنہیں سزا دے اور حکومت خود ان کا تحفظ فرما رہی ہو، وہاں ایمان اور ٹیکنالوجی کی بحث چہ معنی دارد؟ ....کونسا ایمان اور کیسا ایمان؟ ہمیں معلوم نہیں کہ حسین نصر اور اس کا گروپ کون لوگ ہیں لیکن آپ یقین کریں امریکہ اور یورپ کے نمک خواروں کے بہت سے گروپ آج تمام اسلامی ممالک میں سرگرم عمل ہیں ، جن کے پیش نظر درج ذیل دو مقاصد ہیں : اوّلاً: مسلمانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ٹیکنالوجی میں امریکہ سے صدیوں پیچھے ہیں ، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ بلا چوں و چراں امریکہ کی غلامی اختیار کر لی جائے اور اسے اپنا آقا اور اَن داتا تسلیم کر لیا جائے۔ ثانیاً: عوام الناس کو یہ یقین دلایا جائے کہ موجودہ زوال اور پستی کا سبب ایمان سے محروم بزدل اور عیاش حکمران نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی قلت یا اس سے محرومی ہے تاکہ امریکہ کے ان پسندیدہ حکمرانوں کی حکومتیں قائم دائم رہیں اور عوام اُن سے تعرض نہ کریں ۔ پس حاصل گفتگو یہ ہے کہ آج ملتِ اسلامیہ خصوصاً اہل پاکستان کے زوال اور پستی کا اصل سبب ٹیکنالوجی سے محرومی یا قلب نہیں بلکہ ایمان سے محروم قیادتیں ہیں ، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل ایمان و دانشور ٹیکنالوجی کی اس بحث سے ہرگز متاثر نہ ہوں اور واضح الفاظ میں کھل کر اصل سبب یعنی ضعفِ ایمان کی نشاندہی کریں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ غلبہ کا وعدہ ایمان کی شرط کے ساتھ فرمایا ہے۔ ٹیکنالوجی کی شرط کے ساتھ نہیں فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: