کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 64
میں امریکہ سے بہت پیچھے ہیں ، ہم کسی صورت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ ہم بلا چوں و چراں امریکہ کی ہر بات تسلیم کریں ، ورنہ وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اُمتِ مسلمہ پر سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کرنا یا اس میں ترقی کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ ہماری ناقص رائے میں یہ بحث عوام الناس کو اُلجھانے اور اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ غور فرمائیے کہ اگر کسی شخص پر کتا حملہ آور ہو تو کیا اسے یہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے اور کتے کو مار بھگائے؟ یہ بات اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے کہ وہ دشمن سے اپنا دفاع کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے اور پھر اس کا حکم بھی دیا ہے ﴿واَعِدُّوا لَھُمْ مَا استَطَعْتُمْ﴾ اپنی جان یا اپنے وطن کے دفاع کے لئے ٹیکنالوجی کا حصول یا اس میں ترقی کے لئے کوشش کرنا تو ایک قطعی اورطے شدہ امر ہے جس سے کسی بھی ہوش مند انسان کو انکار نہیں ہو سکتا۔ اصل اور ہمارے پیش نظر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس کم از کم اپنا دفاع کرنے کے لئے ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ؟ ہم زمینی حقائق کی بنا پر پورے وثوق سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لئے الحمد للہ بھرپور قوت اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ آج پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے لئے جو بات سوالیہ نشان بن چکی ہے اور جس وجہ سے وطن عزیز کا باشعور طبقہ دن رات آگ کے انگاروں پر لوٹ رہا ہے، وہ ہمارے ملک کے قبائلی علاقوں میں دشمن کے ڈرون حملے ہیں جن کی وجہ سے بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے آئے روز شہید ہو رہے ہیں ۔ ہماری عسکری قیادت کا یہ بیان پہلے شائع ہو چکا ہے کہ ہم ڈرون حملوں کو روکنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور اب روزنامہ ’جنگ‘ کے معروف کالم نگار عرفان صدیقی نے لکھا ہے کہ میں نے ایک ملاقات میں براہِ راست فضائیہ کے سربراہ چیف مارشل راؤ قمر سلیمان سے ڈرون حملوں کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’سیاسی حکومت فیصلہ کر لے، ہمیں حکم دے ہم ان ڈرونز کو چڑیوں کی طرح مار گرائیں گے؟‘‘ [1]
[1] روزنامہ جنگ :21 مارچ 2011ء