کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 60
عملی تعاون مختلف سیاسی و غیر سیاسی مسائل میں عورت کی رائے اور فہم سے اسلامی معاشرہ نے جس طرح فائدہ اُٹھایا ہے، اس طرح اپنی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے وہ مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ضرورت پر خلافت نے بھی اس سے یہ خدمات حاصل کی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے خوارج نے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو جہاد پر لے جاتے تھے؟اُنہوں نے جواب دیا:’’وقدکان یغزوبہن فیداوین الجرحی‘‘[1] ’’ہاں آپ ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں اور مریضوں کے علاج معالجہ کا کام انجام دیتی تھیں ۔‘‘ کان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یغزو بأم سلیم ونسوۃ من الأنصار فیسقین الماء ویداوین الجرحی [2] ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُم سلیم اور انصار کی بعض خواتین کو لے کر جنگ پر روانہ ہوتے تھے تاکہ وہ پیاسوں کو پانی پلائیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کریں ۔ اسکے علاوہ بعض سماجی اور مذہبی کام بھی ان سے لیے گئے ہیں مثلاً امّ ورقہ بنت عبداللہ کہتی ہیں : ’’کان رسول ﷲ یزورہا في بیتہا وجعل لہا مؤذنا یؤذن لہا وأمرہا أن تؤمن أہل دارہا‘‘[3] ’’ رسول اللہ ان کے گھر آتے تھے انہوں نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا جو اذان کہتا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائیں ۔‘‘ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی ایک لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ رمضان کی راتوں کی نماز (تراویح) میں ان کی گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔[4] اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشرہ نے عورت پر بہت سی مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں عائد کیں اور مسلمان عورت نے اپنی خانگی فرائض کے ساتھ اپنی اِن ذمہ داریوں کو بطریق اَحسن پورا کیا ہے ۔
[1] صحیح مسلم:۱۸۱۲ [2] ایضاً [3] سنن ابوداؤد:۵۹۱ [4] المحلی:۳/۱۱۸