کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 6
اثرورسوخ اور کنٹرول قائم کیا جائے جہاں فوجی اڈّے قائم کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘ عالمی ذرائع ابلاغ میں سینکڑوں مضامین او رکالم شائع ہوئے جس میں اس جنگ کو ’تیل کے لیے جنگ‘ (War for Oil)کا نام دیا گیا تھا۔ اعصام الامین مزید لکھتے ہیں : ’’لیبیامیں جاری مہم جوئی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ لیبیا اگرچہ 60 لاکھ آبادی کا ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر اس میں 42 بلین بیرل تیل (جو امریکہ میں ایسےذخائر کا دُگنا ہے) اور5ء1ٹریلین کیوبک میٹر قدرتی گیس کے ثابت شدہ ذخائر پائے جاتے ہیں ۔اسی طرح سلفر(Sulfur) کولیجئے۔ دنیامیں اس کی صاف ترین اور سستی ترین سلفر لیبیا میں موجود ہے، اسے نکالنے کے لیے ایک ڈالر فی بیرل سےبھی کم خرچ آتاہے۔یورپ سے لیبیا کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے اسے لے جانے کے اخراجات بھی سستے ترین ہیں ۔‘‘ مغربی استعمار نے لیبیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کس قدر سُرعت اور برق رفتاری سے چند دنوں میں سارے مراحل طے کرلیے۔ میں اس برق باشی کواعصام الدین کے الفاظ میں بیان کرنا چاہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں : ’’17 فروری کو لیبیا کے عوام کی طرف سے معمر قذافی کے 42 سالہ دورِ استبداد کے خلاف پُرامن احتجاج کے فوراً بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی قیادت میں مغربی ممالک نے قذافی کو تنقید کا نشانہ بنایا، چند ہی دنوں میں اقوام متحدہ نے کئی قرار دادیں منظور کرلیں ، لیبیا کے آمر، اس کے بیٹوں اور دیگر قرابت داروں کے اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا، نوفلائی زون قائم کردیئے گئے اور دیگر فوجی اقدامات کاان ممالک کو اختیار دے دیا گیا۔مزعومہ مقصد کیا تھا؟ شہریوں کا تحفظ‘‘[1] ہم جانتے ہیں کہ مصر، یمن، بحرین، شام ، مراکش اور تیونس میں بھی پُرتشدد احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں ، ان ممالک میں بھی بہت سی اموات واقع ہوئی ہیں ۔ بحرین میں تو امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ بھی موجود ہے، مگر وہاں امریکہ نے فوجی مداخلت
[1] روزنامہ Counter Punch بحوالہ ڈیلی ٹائمز 26 مارچ 2011ء