کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 59
في قولہا أو یستحسنہ فیأخذ بہ[1] ’’عمر رضی اللہ عنہ پیش آمدہ مسائل میں (اصحاب الرائے لوگوں سے) مشورہ کرتے حتیٰ کہ (ان مسائل میں سمجھ بوجھ رکھنے والی) کوئی عورت ہوتی تو اس سے بھی اور بسا اوقات ان کی رائے میں خیرو خوبی کا کوئی پہلو دیکھتے یا کوئی مستحسن چیز پاتے تو اس کو اختیار کرتے۔‘‘ شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’شفاءؓ ہجرت سے قبل اسلام لائیں ، وہ مہاجرات میں سے ہیں اور نبی کی بیعت ہوئیں ۔ آپ کا شمارفاضل اور زیرک عورتوں میں ہوتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی رائے کو مقدم رکھتے اور اسے ترجیح دیتے تھے۔‘‘[2] جس زمانہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے قصاص لینے کی تیاری کررہی تھیں ، اپنی ایک تقریر میں فرماتی ہیں : ’’لوگ عثمان کے خلاف ہو رہے تھے اور ان کے عمال پر الزامات لگا رہے تھے۔ وہ ہم سے ان کی خبروں کے بارے مشورہ کرتے تھے تو ہم نے ان سب حالات میں عثمان رضی اللہ عنہ کو بے گناہ، متقی، اور وفادار پایا جب کہ اودھم مچانے والوں کو فاجر دھوکے بازاور حیلے باز پایا۔‘‘ [3] اِن الفاظ سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے اعمال کا دقت ِنظر سے مطالعہ کرتی رہتی تھیں کہ کون سے اُمور حدودِ عدل و انصاف کے اندر انجام پا رہے ہیں اور کہاں ان حدود سے تجاوز ہو رہا ہے، دوسرے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل و معاملات سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور لوگ اہم سیاسی مسائل تک میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ اُن کو سلجھانے کی کوشش کرتی تھیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے؟اس بنیادی سوال کو لے کر بصرہ کی مشہور شخصیت اور اپنے قبیلہ کے سردار احنف، حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھی جاتے ہیں ۔ جب تینوں کی رائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں پاتے ہیں تو مدینہ جا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ۔[4]
[1] بیہقی:۱۰/۱۱۳ [2] الاستیعاب فی اسماء الاصحاب تذکرہ شفا بنت عبداللہ [3] تاریخ کامل:۲/۹۰ [4] طبری:۵/۱۹۷