کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 58
کی صورت میں بہت ممکن ہے کوئی ظالم سرپرست بے آسرا لڑکی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا لے اور شریعت نے اس کو اپنے متعلق فیصلہ میں رضامندی کا جو حق دیا ہے، اس سے محروم کر دے۔ اس لیے خصوصی طورپر اس سے رائے اور مشورے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ عورت پر کسی حال میں بھی جبر نہ ہو۔ ان معاملات کا تعلق تو اس کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اس سے بھی آگے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے:((آمروا النساء في بناتہن)) [1] ’’ عورتوں سے ان کی لڑکیوں کے معاملہ میں مشورہ لو۔‘‘ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جن شعبوں سے متعلق وہ تجربات رکھتی ہے اور ان کے نفع و نقصان سے بہتر طور پر واقف ہے، ان کے سلسلہ میں اس کے افکار و خیالات خصوصی توجہ اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا بلکہ ان معاملات میں اس کی رائے اور مشورہ سے فائدہ اٹھانے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔ یہ اُسوہ زندگی کے کسی ایک یاچندپہلوؤں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔بلکہ اس کا تعلق ہر نوعیت کے مسائل اور تمام پہلوؤں سے ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ کے صفحات میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ حدیبیہ کی مشہور صلح، قریش اور مسلمانوں کے درمیان جن شرائط پر ہوئی تھی ۔ ابتدا میں ان سے مسلمانوں کی اکثریت ناخوش تھی۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے۔ اس شرط کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حدیبیہ ہی کے مقام پر احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، لیکن صحابہ کے جذبات اس وقت اتنے بدلے ہوئے تھے کہ اس حکم کی تعمیل ہوتی نظر نہ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افسوس کے ساتھ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے انتہائی دانش مندانہ مشورہ دیا کہ آپ کسی سے مزید گفتگو نہ فرمائیے بلکہ جو مناسک ادا کرنے ہیں ان کو آگے بڑھ کر ادا کیجیے۔ پھر دیکھیے، کس طرح لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مشورہ پر عمل کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کو دیکھ کر فوراً پیروی شروع کر دی۔[2] اس طرح اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی درست اور صائب رائے نے آن کی آن میں یہ نازک صورتِ حال ختم کر کے رکھ دی۔حضرت عمر کے بارے میں ہے کہ إن کان عمر لیستشیر في الأمر حتی إن کان لیستشیر المرأۃ فربما أبصر
[1] سنن ابو دائود:۲۰۹۵ [2] صحیح بخاری:۲۷۳۲