کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 57
نے تہدید آمیز انداز میں پوچھا: ’’اے معاویہ! تو نے حجر اور اس کے ساتھیوں سے جو کیا وہ کیا۔ تو نہیں ڈرتا کہ میں کسی آدمی کو چھپا کے بٹھاؤں تاکہ وہ تجھے قتل کر دے۔‘‘ روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے معذرت کرتے کرتے بڑی مشکلوں سے ان کی خفگی کو ختم کیا۔[1] رائے اور مشوروں کا حق اور اس سے استفادہ یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے سود و زیاں اور نفع وضرر سے مسلمان عورت کسی تماشائی کی طرح غیر متعلق نہیں رہ سکتی،کیونکہ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ اور اصلاح و فساد سے اس کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ معاشرہ کا نقصان اس کا اپنا نقصان اور معاشرہ کا فائدہ اس کا اپنا فائدہ ہے۔ وہ معاشرہ کو خیر کی بنیادوں پر قائم رکھنے میں مدد دے گی تو لازماً شر کی راہ پر لے جانے کی مخالفت اور مزاحمت بھی کرے گی۔ بھلائیوں کا خیر مقدم کرے گی تو برائیوں پر احتجاج بھی کرے گی۔ یہ اس کا فطری حق ہے جو اجتماعی زندگی نے اس کو عطا کیا ہے۔ جہاں تک اس کے ذاتی مسائل کا تعلق ہے مثلاً نکاح، خلع وغیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا جو بھی اقدام کیا جائے گا، اس کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لا تنکح الأیم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن)) [2] ’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اِجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ ایک دوسری روایت ہے : ((لا تنکحوا الیتامی حتی تستأمروہن)) َ<mfnote> ’’یتیم لڑکیوں کا نکاح ان سے رائے اور مشورہ کرنے سے پہلے نہ کر دو۔‘‘ ’یتامی‘ کا لفظ یہاں بہت ہی قابلِ توجہہے۔ شفیق و مہربان اور خیر خواہ باپ کے نہ ہونے
[1] البدایۃ والنھایۃ:۸/۵۵ [2] صحیح بخاری:۵۱۳۶ [3] ابن قتیبہ، عیون الاخبار:۱/۲۷