کتاب: محدث شمارہ 347 - صفحہ 56
حق کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ ایمان رکھتی ہے،نا ممکن ہے کہ وہ باطل کی تاریک شب کو اس پر قبضہ جمانے کی اجازت دے۔ اگر وہ اس کی اجازت دیتی ہے تو اپنے دین و ایمان کی موت کا اعلان کرتی ہے۔ اس لئے وہ مجبور ہے کہ سو سائٹی میں باطل کے جراثیم کو پنپنے اور دین و ایمان کی غارت گر قوتوں کو قدم جمانے کا موقع نہ دے۔ سیدہ عائشہ کی تنقید و احتساب بنو اُمیہ کے آغازِ خلافت کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنر اپنے خطبوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں پر لعن طعن کرتے تھے۔ان کی اس روش پر کوفہ کے ایک صحابی حجر بن عدی رضی اللہ عنہ برملا تنقید فرماتے اور ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اعوان و اَنصار کی مدح و توصیف کرتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے ان کی زبان بندی کی ہر چند کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے برعکس حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے ہم خیال اور مؤیدین میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعض ساتھیوں کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔اور جب یہ گرفتار کر کے ان کے پاس لائے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوا تو فوراً عبدالرحمن بن حارث کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ وہ اس اقدام سے باز آجائیں ، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی حجر رضی اللہ عنہ اور ان کے سات ساتھی شہید کیے جا چکے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بے حد خفا ہوئیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے سختی سے بازپرس کی عبدالملک بن نوفل روایت کرتے ہیں کہ وہ یہاں تک کہتی تھیں : ’’ لو لا یغلبنا سفہاء نا لکان لي ولمعاویۃ في قتل حجر شأن‘‘[1] ’’اگر سفہا کے غلبہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو حجر کے قتل کے سلسلہ میں میرا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اکابر صحابہ، فتنہ و فساد کے خدشہ سے بعض غیر شرعی اُمور انجام پاتے ہوئے دیکھنے کے باوجود خاموش رہے، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس معاملہ میں بر بنائے مصلحت سکوت اختیار کیا۔ ورنہ وہ کوئی سخت قدم اُٹھانا چاہتی تھیں ۔ حج کے زمانے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوئی تو حضرت عائشہ
[1] البدایۃ والنھایۃ:۸/۵۵